9/30/2018

میری یاد آتی ہے؟

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا تھا کہ کوئی تو ہوگا جو اس بے روح،بے جان اور بے سکون انسان کی زندگی میں جنون کی حد تک مستی لاسکتا ہے، کوئی تو ہوگا جو اس بے سروسامان کی زندگی گزارنے والے شخص کے دل میں بسے ارمانوں پر پھولوں کی چادر چڑھانے سے پہلے ایک بار انہیں گنگنانے کا موقع دے گا۔ کوئی تو ہوگا جو تنہائی کو اپنا سب سے بڑا دوست ماننے والے اس شخص کو تنہائی کی اس مرض سے نجات دلائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ شخص مل گیا۔
            کہانی اتنی بھی پرانی نہیں جتنی لگ رہی ہے لیکن اسی شہر کے انہی راستوں پر جاتے ہوئے میں اس سے ملا، آنکھیں ملی پر کچھ احساس نہیں تھا کہ کیا کچھ ہونیوالا ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، اس نے میری طرف دیکھا اور قصہ تمام ۔ ۔ ۔ لیکن قصہ تمام نہیں تھا یہ میرا وہم تھا کہ قصہ تمام ہوچکا ہے۔ ایک بار پھر میں نے اسے اک محفل میں دیکھا اور دیکھتے ہی اس کی خوبصورتی پر دل فدا ہونے ہی والا تھا کہ وہ میرے قریب آکر کہنے لگی ۔ ۔ ۔ یہ سامنے بیٹھا شخص مجھے گھور رہا ہے ۔۔۔ یہ کون ہے؟ ۔۔ میں خود حیران و پریشان کہ میں جن خیالوں میں گم تھا انہی سے جگا کر مجھے جلایا جارہا ہے ۔۔ دل ہی دل میں سوچ کر اس بندے کو دو تین تھپڑ بھی رسید کرچکا تھا لیکن میں نے بس اتنا ہی جواب دیا کہ وہ گھور نہیں رہا، وہ شاید تمہیں پہلی بار دیکھ رہا ہے اسی لئے زیادہ گھور رہا ہوگا۔ محفل برخاست ہوئی اور میں اس کے خیالوں میں گم گھر کی طرف لوٹنے لگا۔۔ پورے راستے پر اسی سوچ نے بے چین کردیا تھا کہ یہ مجھے کیا ہونیوالا ہے؟ میرے دل کی دھڑکنیں تیز کیوں ہوگئی ہیں؟ میں اتنا بے قرار کیوں ہو؟ مجھے کسی کی طلب کیوں ہورہی ہے؟ شاید میں پیار کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔؟ نہیں نہیں ۔۔۔۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ تجھے پیار نہیں ہوسکتا۔۔ ابھی تو تمہیں بڑا آدمی بننا ہے۔۔ ابھی تو تمہاری منزل بہت دور کھڑی ہے۔۔ ابھی تو تمہیں بڑا فاصلہ طے کرنا ہے۔۔ یہ تو صرف شروعات ہیں تیری زندگی کی ۔۔ صبر کر اور ان پیار کے چکروں میں نہ پڑ ۔ ۔ ۔ خود کو سمجھا بجھا کر گھر پہنچ ہی گیا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجھی ۔ ۔ ایک ان نون نمبر سے کال تھی ۔۔ میں نے فون اٹھایا (حالانکہ میں کبھی بھی ان نون نمبر کے کالز نہیں اٹھایا)۔۔ دوسری طرف سے ایک بہت ہی پیاری آواز میں جب ہیلو سنا تو میری سانس رک گئی۔۔ میں دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ چابی میرے ہاتھ سے گرگئی اور دل کی دھڑکن اور تیز ہوگئی۔ میں نے پوچھا۔۔ "کون" ۔۔ بولی "میں ہوں" ۔۔ میں نے پوچھا "آپ کون" ۔ بولی "ارے جی مجھے بھی نہیں پہچانتے؟؟ ابھی ابھی تو آپ سے مل کر گھر آئی ہوں ۔۔" بس میری سانس رک گئی اور وہی ہوا جس کا  خدشہ تھا۔
            ہیلو سے شروع ہونیوالا یہ سلسلہ پھر رات سے لے کر صبح تک کالز اور میسجز تک جاپہنچا۔ کچھ ہی دنوں میں اس کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ کسی بھی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ دل بس اسی کی سوچ میں ہر وقت گم، اور اس سے ملاقات کے بہانے تلاش کرتا تھا۔ پوری پوری رات وہ مجھ سے شاعری اور میرے لکھے ہوئے افسانوں کی فرمائشیں کرتی تھیں۔ میں جب بھی اپنی زندگی پر لکھی گئی کوئی تحریر اسے سناتا تھا تو وہ رونے لگتی تھی ۔۔ میں اس کے سامنے اس وقت تک نہیں رویا تھا، بلکہ میں اسے سمجھاتا تھا کہ میری تحریروں کو سنجیدہ نہ لیا کرو، یہ بس تحریریں ہیں اور کچھ نہیں لیکن وہ کہتی تھی نہیں۔۔۔ یہ تم نے کس کے لئے لکھی ہیں؟ میں بات کو بہت ٹالنے کی کوشش کرتا تھا لیکن وہ تھی کہ مانتی ہی نہیں۔۔ اسی بحث میں چھ سات گھنٹے کیسے گزر جاتے مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔ وہ بھی مجھے اکثر کہتی تھی کہ میں نے کبھی کسی سے اتنی لمبی گفتگو نہیں کی، تم پہلے ہو جس سے بات کرتے ہوئے ٹیلیفون بند کرنے کو دل نہیں کررہا۔۔۔ کال بند ہو بھی جاتی تو میسجز کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔۔ صبح کی روشنی تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔
            زندگی اب خوبصورت بن چکی تھی۔۔ میں ایک خوش وخرم انسان کی زندگی پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ مجھ میں زندگی آچکی تھی، اس کے ایک فون کال پر میں اگر میلوں دور بھی ہوتا تو اس کے پاس پہنچ جاتا، وہ بھی شاید چاہتی تھی کہ میں اس کے ساتھ رہوں، اس لئے وہ کبھی کبھار میرے گھر بھی آجاتی، میں اس کے لئے چائے بناتا، کھانا پکاتا تھا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں سے بھی کہتی تھی۔۔۔ "چائے پینی ہے تو اس کے ہاتھ سے پیو، بڑی پیاری چائے بناتا ہے یہ بندہ"۔۔ کئی بار میں نے اس کے لئے پاستہ بنایا جو اسے بہت پسند آیا۔۔ ایک بار میں نے کریلے اور قیمہ مکس کرکے پکائے جس کی تعریف مہینوں تک ہوتی رہی۔
            لیکن زندگی کے موڑ پر مشکلیں ضرور آتی ہیں۔۔۔۔ میری مشکلیں کبھی کم نہیں ہوئی، مگر اس کے آنے سے تمام مشکلیں اور کٹھن مراحل آسان نظر آرہے تھے۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جس انسان کی مجھے تلاش تھی شاید وہ مجھے مل گیا ہے۔ جو ادھورا پن میری زندگی میں برسوں سے ایک مستقل حصہ بن چکا تھا، شاید اب وہ ختم ہونیوالا ہے ۔۔۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔۔۔۔ میں غلط تھا۔۔۔ اور شاید اب بھی غلط ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
            اور پھر وہ دن بھی آیا جب مجھے وہ الفاظ سننے کو ملے جس کی مجھے کبھی امید ہی نہیں تھی۔۔ وہ الفاظ میرے دل پر زخم بناکر چلے گئے لیکن جو زخم اب بھی دل پر موجود ہیں وہ شاید پوری زندگی میرے جسم کا حصہ بنے رہیں گے۔۔۔ اب تو میں سنبھل چکا ہوں یا سنبھل جانے کی ایکٹنگ کررہا ہوں، پر امید ہے جلد ہی میں سنبھل جاؤں گا۔۔ مجھے اس کی عادت سی ہوگئی ہے۔ وہ جب بھی مجھ سے بات کرتی ہے ایک نامعلوم جگہ سے سکون کی لہر اٹھ کر میرے جسم میں سماجاتی ہے۔ اگر وہ مجھ سے تلخ بات بھی کرے، مجھے کبھی تلخ نہیں لگتا بلکہ میں اسے اور بھی انجوائے کرتا ہوں، کیونکہ کچھ بھی ہو مجھ سے بات تو کرتی ہے۔
            اب شاید وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے، شاید اسے کوئی اور بھی مل گیا ہوگا، شاید وہ مجھ سے اچھا ہوگا، شاید اس کے پاس اسے خوش رکھنے کے لئے مجھ سے زیادہ کچھ ہوگا، لیکن مجھے یقین ہے کہ جو پیار اور عزت میرے دل میں اس کے لئے اب بھی ہے وہ اسے زندگی بھر یاد رہے گا۔ کہیں نہ کہیں اسے میری یاد ضرور آئے گی کہ ہاں! اس دنیا میں ایک شخص تھا جس نے اسے کئی راستوں سے روشناس کرایا، جس نے اسے بے انتہا پیار کیا۔۔ جس نے اس سے پیار کے علاوہ کوئی چیز مانگا ہی نہیں۔۔ جو صرف اس کے لئے جی رہا تھا۔ جو صرف اسی کی خاطر اپنی ساری زندگی لٹانے کو تیار تھا، جو صرف اس کی خوشی کے لئے اسے چھوڑنے تک تیار ہوگیا تھا۔ جس نے کبھی بھی اس کے نام یا عزت پر آنچ نہ آنے دیا اور نہ آنے دے رہا ہے۔ جس نے لوگوں کے ذہنوں میں موجود اس کے بارے میں خیالات سے اسے آگاہ کیا۔۔۔۔۔۔ شاید یہ میری غلطی تھی کہ میں نے اپنی خودداری اور عزت نفس تک اس کی خاطر چھوڑدیا تھا۔ مجھے بھی لوگوں نے بہت کچھ بتایا لیکن میں نے اگر یقین کیا تو صرف اس کا۔۔۔۔ اب بھی مجھے یقین ہے کہ میرا پیار اگر سچا ہے تو وہ میرے پاس ضرور آئے گی۔۔ میں نے کبھی اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ میں ساری ساری رات اس کے لئے رویا ہوں۔۔ ساری ساری رات اپنی پرانی تصویریں دیکھ دیکھ کہ گزاری ہیں۔۔ ساری ساری رات میں نے اس کے دیے ہوئے گفٹس کو چھوم چھوم کر گزاری ہیں۔۔ ہر اس بات کو یاد کیا ہے جو اس عرصے کے دوران ہمارے درمیان ہوئی ہے۔۔ ہر وہ لمحہ اپنی تصوراتی دنیا میں لے کر آیا ہوں جو اس کے ساتھ گزارا ہے۔ اب میں اس طرح نہیں، نہ ہی اپنا خیال رکھ رہا ہوں، نہ ٹائم پر کھاتا ہوں، نہ سوتا ہوں۔۔۔ کام میں دل نہیں لگ رہا بس اسی کی سوچ کے ساتھ رہ رہ کر خاموش اور بے جان روح بن چکا ہوں۔۔ یہ میں نے کبھی اسے نہیں بتایا کیونکہ وہ ایسی نہیں تھی۔۔اس نے ہمیشہ میرے دل میں سوچی ہوئی بات کو بھی جانا اور محسوس کیا ہے تو میں کیوں اسے بتاؤں۔۔۔؟ ہاں اتنا ضرور بتایا ہے کہ مجھے اس کی یاد آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے یاد میری آتی ہوگی یا نہیں۔۔۔۔ اسی جواب کا انتظار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رہے گا۔

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.