1/07/2019

وہ تاش کے پتے

بڑے دنوں بعد اس سے ملاقات ہوئی، اب ہم اس طرح نہیں ملے جس طرح پہلے ملا کرتے تھے، پہلے جب بھی ہم ملے تو ایک دوسرے کو گلے لگایا، ہاتھ ملایا تو ایک دوسرے کا ہاتھ چھوما اور اس کے بعد باتیں شروع ہوجاتی لیکن اس بار حالات بالکل تبدیل ہوچکے تھے۔ اسے جب بھی میری ضرورت پڑی میں اپنا کام چھوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتا۔ وہ مجھے چھوڑ چکی تھی، وہ یکسر تبدیل ہوچکی تھی یا شاید میرے لئے اس نے اپنے آپ کو بدل دیا تھا کیونکہ اب نہ گھنٹوں ایک دوسرے سے باتیں ہورہی تھیں، نہ حال احوال پوچھا جاتا تھا۔ اس نے جب بھی فون یا میسیج کیا تو اس بارے کہ فلانے کام کا کیا ہوا؟ کیا تم فری ہو؟ میں کہتا ہاں تمہارے لئے ، وہ کہتی اچھا میرا یہ کام کردو اور میں کردیتا کیونکہ میں اب بھی اس سے پیار کرتا ہوں۔ اس نے مجھے بڑے دنوں بعد کہا کہ مجھے ایک جگہ جانا ہے کیا تم وہاں سے مجھے پِک کرسکتے ہو؟ میں ایک کام میں بری طرح پھنسا ہوا تھا، مہمان بھی آئے ہوئے تھے ان کے لئے کھانا منگوایا گیا تھا، دفتر میں بڑی گہماگہمی تھی کیونکہ ہم ایک پراجیکٹ کے آخری مراحل میں داخل ہوچکے تھے کام کا بوجھ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا ایسے میں میرے لئے شاید ممکن نہیں تھا کہ وقت سے پہلے دفتر سے نکل سکوں لیکن نکلنا پڑا۔ میں سیدھا اس کے پاس پہنچا اور وہاں سے ہم روانہ ہوگئے، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید اب دوبارہ ہم ایک دوسرے کے قریب جارہے ہیں، شاید اسے اپنے کئے پر پشیمانی ہے، شاید اسے میرے حالات یا جذبات کی نزاکت کا احساس ہوگیا ہے اور وہ مجھے دوبارہ گلے لگانا  چاہتی ہے لیکن یہ میری خام خیالی تھی کیونکہ اس کے دل میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ میرے دل میں بہت کچھ تھا، بہت سارے سوالات میرے ذہن میں اندر ہی اندر مجھے مجبور کررہے تھے کہ اس سے پوچھ لوں کہ آخر وہ ایسا کیوں کررہی ہے؟ مجھ سے ایسی کیا غلطی ہوگئی ہے کہ اس نے ایک سیکنڈ میں سالہا سال کا بنایا ہوا پیار کا رشتہ توڑ دیا؟ ایسی کونسی قیامت آن پڑی ہے کہ اس نے سب کچھ بھلا کر راسے جدا کردئیے لیکن میں نہ کرسکا۔ اس نے مجھے دعوت دی کہ اسے بھی بھوک لگی ہے اور شام کا کھانا اکھٹے کھاتے ہیں۔ میں بھلا اسے کیسے انکار کرسکتا تھا اور پھر ہم وہی گئے جہاں اکثر شام کو ہم دوسرے دوستوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں سے گزرتے وقت اکثر میرے آنکھوں سے آنسو خودبخود نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔

وہاں جاتے وقت ساتھ گزارے ہوئے ہر لمحے نے مجھے اندر ہی اندر آوازیں دیں کہ اس سے کہو اپنے چاہنے والے دل کو نہ توڑے۔ اس سے پوچھو کہ کدھر ہیں وہ سارے وعدے جو تم دونوں نے کئے تھے؟ اس سے پوچھ کہ آخر کیوں اس نے تمہیں بھلادیا؟ لیکن میں نے اپنے دل و دماغ کو سمجھایا کہ نہیں تم ایسا کچھ نہیں پوچھوں گے کیونکہ بہت دنوں بعد تو اس کی دید نصیب ہوئی ہے، یہ سارے لمحات پیار اور محبت سے گزاریں گے اور پھر ہم اسی جگہ بیٹھ گئے جہاں ہم نے سینکڑوں دفعہ کھانا کھایا تھا، چائے پی تھی اور دلوں میں بسے ارمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کئے تھے۔ وہاں بیٹھتے ہی ایک بار پھر مجھے احساس ہوا کہ ایک بار فقط ایک بار اس سے پوچھ لینا چاہئیے کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہے لیکن پھر خود کو روکے رکھا۔ اس کی جاب ختم ہوگئی تھی اور دوسرے جاب کی تلاش میں تھی جو جلد ہی ملنے والی تھی، میں نے اسے تسلی دی کہ مجھے اس کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے اور جلد ہی جاب مل جائے گی جو مل بھی گئی۔وہاں بیٹھے، کھانا آرڈر کیا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کارڈز (تاش) کھیلنے آتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں ! بس ایک ہی کھیل آتا ہے اور پھر اس نے کارڈز کو شفل کرتے ہوئے کھیل کا آغاز کرلیا۔ وہ جب بھی اپنی باری لیتی تھی میں اس کے نازک ہونٹوں، گھنے بالوں اور ابھری ہوئی گالوں کو دیکھتا رہتا تھا۔ ٹھنڈ بہت زیادہ تھی لیکن مجھے کچھ محسوس نہیں ہورہا تھا، اس نے پوچھا کہ ٹھنڈ کچھ زیادہ نہیں؟ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا "ہاں آج کچھ زیادہ ہی ہے"۔ اس نے دبے ہونٹوں میں مسکراتے ہوئے کہا "چلو! اب تمہاری باری ہے"۔ میں نے کارڈ پھینکتے ہوئے کہا میرے پاس وہ نہیں جو سامنے پڑے ہیں۔ ایسا نہیں تھا، بلکہ میں اس سے جیتنا نہیں چاہتا تھا اور جو بھی کارڈ پھینکتی میں اس کے خلاف کارڈ پھینکتا تاکہ وہ جیت جائے اور میں ہارجاؤں۔
وہ سمجھ گئی کہ میں کھیل نہیں کھیل رہا بلکہ اس کو جتوارہا ہوں، کچھ ہی لمحوں بعد وہ تمام کارڈز میز کے اس پار پھینک کر غصے سے اٹھ کر چلی گئی اور کہا کہ مجھے نہیں کھیلنا۔۔ میں ہنستا رہا اور اس کا غصہ اور زیادہ ہوتا گیا۔ مجھے اس کے غصے میں بھی پیار نظر آرہا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید وہ اب بھی مجھ سے پیار کرتی ہے، شاید وہ اب بھی چاہتی ہے کہ گاڑی میں بیٹھ کو وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر کچھ لمحوں کے لئے آنکھیں بند کردیں۔ شاید وہ اب بھی چاہتی ہے کہ ہم کسی گھنے جنگل میں واک پر چلے اور وہ مجھے پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہے، "میں تم سے پیار کرتی ہوں"۔ ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا یہ میرا وہم تھا، وہ سراسر ایک بدلی ہوئی لڑکی تھی جو شاید کسی اور کے خیالوں میں گم ہوگئی تھی اور مجھے بس اس قدر جاننا چاہتی تھی جب اسے ضرورت ہو توہ میں حاضر ہوجاؤں کیونکہ میں نے زندگی بھر کبھی اسے کسی چیز کے لئے 'نا' نہیں بولا اور شاید آگے بھی نہ بول سکوں۔
میں نے اسے سمجھا بجھا کر پھر کرسی پر بٹھا کر کہا چلو اب گیم کھیلتے ہیں اور پھر کارڈز کھیلنے لگے۔ 12 کب بج گئے ہمیں پتہ ہیں نہیں چلا ۔ کم از کم مجھے پتہ نہ چل سکا کیونکہ میں اسے مہینوں بعد دیکھ رہا تھا اور ابھی میری آنکھوں کی ٹھنڈک شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس نے کہا، 'اب بہت دیر ہوچکی ہے، چلو گھر چلتے ہیں'۔ کچھ ہی ہفتوں پہلے انہوں نے گھر تبدیل کیا تھا اور میری بدقسمتی کہ مجھے بتایا بھی نہیں تھا۔ مجھے اس کے نئے گھر کا پتہ معلوم نہیں تھا لیکن آج خوشی تھی کہ اسی بہانے اس کی نئی گلی تو دیکھ لوں گا۔ ایک وقت تھا جب وہ اگر بازار سے سبزی بھی لاتی تھی تو مجھے فون کرکے بلاتی کہ مجھے بازار جانا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گھر تبدیل ہوگیا، ساری شفٹنگ ہوگئی لیکن مجھے پتہ نہ چل سکا۔ پتہ نہیں کس طرح اس نے وہ بھاری بھرکم سامان اٹھایا ہوگا یا شاید اب سامان اٹھانے والا کوئی اس کی زندگی میں آیا ہوگا۔۔۔ (خدا نہ کرے)۔
میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور اسے دیکھتے ہوئے بس ایک لمبی سانس لے کر گاڑی روانہ ہوگئی۔ راستے میں اسی کی پسند کا گانا چل رہا تھا، وہ گانا جب ختم ہوجاتا تو میں اس کو دوبارہ چلادیتا کہ بس اس کو یہ احساس ہوجائے کہ اس کی پسند اب بھی میری پسند ہے، اگرچہ اب وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے لیکن اس کا دیا ہوا ہر زخم، ہر درد اور ہر پسند میرے ساتھ اب بھی محفوظ ہے جو زندگی بھر محفوظ رہے گی۔ پلک جھپکتے ہوئے میری گاڑی اس کے گھر کے سامنے رک گئی اور وہ اترنا چاہتی تھی لیکن میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، وہ بھی حیران ہوگئی تو کہا کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے مجھے گھر جانا ہے۔ میں نے بس ایک خواہش کا اظہار کیا کہ بس آخری بار ان کے ہاتھ چھومنا چاہتا ہوں۔ اس کا شکریہ کہ انکار نہ کرسکی اور میں نے آخری بار اس کے ہاتھوں پر ہونٹ رکھ کر ایک لمبا سانس لیا اور اسے رخصت کیا۔

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.