2/14/2024

د نيازک خان سره تفصيلي مرکه

 د نيازک خان سره مرکه


2/15/2019

وہ سامنے تھی۔۔۔ مگر

'وہی شام کی خنکی، وہی ٹھنڈا موسم، وہی بارش کے قطرے، وہی گاڑی، وہی لباس، وہی ہاتھ میں سگریٹ کے دو پیکٹ، وہی جوتے جو اس نے برتھ ڈے پر گفٹ کئے تھے، وہی موفلر جو اس کے ساتھ اکٹھے خریدا تھا، وہی ٹوپی جو سردی سے بچنے کے لئے اسی نے خرید کر دیا تھا اور وہی جگہ جہاں ہم اکثر شام کے بعد بیٹھا کرتے تھے، جہاں ہم تاش کے پتے ساتھ لے کر جاتے تھے اور وہ اکثر اسے ہی جتاتا تھا'۔ آج ایک بار پھر وہی جگہ لیکن نظارہ بالکل الٹ۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور مزے سے کھانا کھارہی تھی کہ اچانک اس کی نظر اپنے اس پرانے محبوب پر پڑی۔ اس کے ہاتھ اور منہ کے درمیان نوالہ رک گیا، وہ شاید چاہتی تھی کہ اسے پرانی نظروں سے دیکھ لے، اسے گلے ملے، شکوے کریں، اس کے دوستوں کے ساتھ ان کا تعارف ہوجائے کیونکہ اسی جگہ کی پرانی یادیں اسے ہر وقت بڑی تڑپاتی رہتی تھی، لیکن بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اب وہ بدل چکا تھا، اب وہ پرانے جیسا نہیں رہا تھا، اب وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ سامنے سے گزر کر بھی اس کی طرف نہ دیکھ سکا یا دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے دوست بھی حیران و پریشان تھے کہ کیونکر اس سے ملا تک نہیں۔ اگر اس سے نہیں ملنا تھا تو وہ دوست جو اس کے پاس بیٹھی تھی، وہ بھی ان کو جانتی تھی لیکن اس کو بھی سلام تک نہ کیا۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس کے دوستوں کے ذہنوں میں بیسیوں سوال اٹھنے لگے لیکن دور جاکر ایک جگہ بیٹھ گئے۔
            باتوں ہی باتوں میں ایک دوست نے صرف اتنا پوچھا کہ یہ لڑکی وہ نہیں تھی؟ اس نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا کونسی لڑکی؟ یہاں تو بہت ساری لڑکیاں بیٹھی ہوئی ہیں اور پھر بات کو بدلتے ہوئے ویٹر کو آواز دی۔۔۔ جب ویٹر آیا تو وہ بھی حیران رہ گیا کیونکہ یہی ویٹر ان سب واقعات کا شاہد تھا کہ جب وہ اکٹھے آتے تھے، اکٹھے بیٹھتے تھے، اکھٹے کھانا کھاتے تھے اور اکھٹے ہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر واپس چلے جاتے تھے۔ آج کیا ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کو پیٹھ دکھارہے تھے۔ ویٹر نے بھی حیران نظروں سے دیکھ کر پوچھا، "جی صاحب کیا کھائیں گے"؟ وہ سمجھ گیا کہ ویٹر کے ذہن میں بھی سوالات کی بوچھاڑ چل رہی ہے لیکن بیچارا پوچھ نہیں سکتا۔ دوستوں کی باتیں ہورہی تھیں، یہاں وہاں کی باتیں جاری تھی کہ اتنے میں وہ اٹھ کر وہاں سے چلی گئیں۔ اس نے شکر ادا کرتے ہوئے پیچھے مڑنے کی کوشش کی لیکن نہ مڑ سکا کیونکہ وہ اسے احساس دلانا چاہتا تھا کہ اس نے جو کیا وہ اب بھی اس کے ذہن میں نقش ہیں۔ وہ اب بھی محبت اور نفرت کے درمیان ایسی زنجیروں میں اپنے آپ کو بندھا ہوا دیکھ رہا ہے جہاں وہ گھنٹوں گھنٹوں اس کی گلی میں کھڑا ہو کر رات دیر تک صرف اس کے ایک ایس ایم ایس کا انتظار کررہا ہوتا تھا۔ وہ اب بھی اپنے آپ کو اس بند گلی میں کھڑا دیکھ رہا تھا جب اس نے غصے میں فون کاٹتے ہوئے اسے کہا تھا، “You are no one for me” اور اسی بات کو لے کر وہ کئی دن سو نہ سکا تھا۔ جب اس نے کہا تھا کہ ہمارا تعلق اب نہیں رہا، تم میرے اچھے دوست ہو اور بس ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن بھی اسے یاد آرہے تھے جب ساری ساری رات وہ اسے اپنی غزلیں سنایا کرتا تھا اور پھر اس کے آنسو پونچھتا تھا۔
            یہ ساری یادیں کھانے کے میز پر اس کے سامنے ایک فلم کی طرح چل رہی تھی کہ اتنے میں کھانا آگیا اور سب کھانا کھانے لگے لیکن اس کی ایک نظر اس میز کی طرف بھی تھی جہاں اس کا پیار اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر مستیاں کررہی تھی۔ وہ اپنی توجہ ہٹانے کی بھرپور کوشش کررہا تھا کہ اتنے میں اندر سے گانے کی آواز آنی شروع ہوگئی جس کے بعد ایک لڑکی ڈانس کرنے لگی۔ یہ سارا نظارہ اس کے ذہن میں نقش تھا اور اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوچکا ہے یا شاید ہر رات اس کے ساتھ یہی سب کچھ ہورہا ہے حالانکہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اب زندگی بھر اس کو اپنی شکل نہیں دکھائے گا۔ وہ اب بھی اپنے وعدے پر قائم تھا لیکن قدرت نے انہیں دوبارہ ملانا تھا اور صرف نظریں ہی ملاسکیں۔ وہ وہاں اور نہیں ٹھہرنا چاہتا تھا لیکن اپنے دوستوں کے سامنے صبر کی گولی کھاکر بیٹھا ہوا تھا۔ تین نوالے کھائیں اور سیگریٹ سلگائی۔ اس کے پاس بیٹھے دوست یہ سب کچھ محسوس کررہے تھے لیکن منہ سے کچھ نہیں کہہ رہے تھے کیونکہ یہی دوست تھے جب وہ انتہائی اذیت کے دنوں میں ساری ساری رات روتا تھا، تو وہ اسے دلاسہ دیتے تھے، تسلیاں دیتے تھے کہ زندگی ایک شخص کے جانے کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتی اور وہ صرف یہ کہہ کر زاروقطار رونے لگتا تھا کہ "آخر کیوں؟؟؟ میرا قصور کیا تھا؟"
            کھانے کے بعد اس نے پھر ویٹر کو آواز دی اور قہوے کا کہہ کر پھر چپ ہوگیا۔ اس کے دوست کبھی سیاست پر بات کرتے اور اس سے سوال کرتے لیکن وہ کچھ جواب نہ دیتا۔ پھر محبت پر بات شروع ہوگئی تو بھی وہ چپ۔ کاروبار پر بحث چڑگئی تو اس نے کوئی حصہ نہیں لیا۔ صحافت پر بات ہوئی لیکن اس کو نہیں بولنا تھا کیونکہ وہ اپنی یادوں کے اس جہاں میں گھوم رہا تھا جہاں اب وہ انتہائی اکیلا کھڑا تھا۔ نہ ماں باپ اس کے ساتھ تھے، نہ بھائی بہن اور نہ وہ جس کی خاطر اس نے سب کچھ چھوڑا تھا۔
            وہ سب کھانا کھاچکے تھے، قہوہ بھی پی گئے اور اسے دھکا دیتے ہوئے جگایا کہ اب بس۔۔۔ یہاں سے چلنا ہے۔ اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو اسے کوئی نظر نہیں آیا اور ایسا لگا جیسے اس کے سامنے دنیا بالکل تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہو۔۔۔۔۔ وہ اپنے ایک جگری یار کے کان میں بس اتنا کہہ سکا۔۔ اسے دیکھا پر دیکھ نہ سکا اور گاڑی میں بیٹھ کر اس شہر سے واپس ہوگئے کیونکہ اب وہ شہر اس کا نہیں رہا۔

1/07/2019

وہ تاش کے پتے

بڑے دنوں بعد اس سے ملاقات ہوئی، اب ہم اس طرح نہیں ملے جس طرح پہلے ملا کرتے تھے، پہلے جب بھی ہم ملے تو ایک دوسرے کو گلے لگایا، ہاتھ ملایا تو ایک دوسرے کا ہاتھ چھوما اور اس کے بعد باتیں شروع ہوجاتی لیکن اس بار حالات بالکل تبدیل ہوچکے تھے۔ اسے جب بھی میری ضرورت پڑی میں اپنا کام چھوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتا۔ وہ مجھے چھوڑ چکی تھی، وہ یکسر تبدیل ہوچکی تھی یا شاید میرے لئے اس نے اپنے آپ کو بدل دیا تھا کیونکہ اب نہ گھنٹوں ایک دوسرے سے باتیں ہورہی تھیں، نہ حال احوال پوچھا جاتا تھا۔ اس نے جب بھی فون یا میسیج کیا تو اس بارے کہ فلانے کام کا کیا ہوا؟ کیا تم فری ہو؟ میں کہتا ہاں تمہارے لئے ، وہ کہتی اچھا میرا یہ کام کردو اور میں کردیتا کیونکہ میں اب بھی اس سے پیار کرتا ہوں۔ اس نے مجھے بڑے دنوں بعد کہا کہ مجھے ایک جگہ جانا ہے کیا تم وہاں سے مجھے پِک کرسکتے ہو؟ میں ایک کام میں بری طرح پھنسا ہوا تھا، مہمان بھی آئے ہوئے تھے ان کے لئے کھانا منگوایا گیا تھا، دفتر میں بڑی گہماگہمی تھی کیونکہ ہم ایک پراجیکٹ کے آخری مراحل میں داخل ہوچکے تھے کام کا بوجھ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا ایسے میں میرے لئے شاید ممکن نہیں تھا کہ وقت سے پہلے دفتر سے نکل سکوں لیکن نکلنا پڑا۔ میں سیدھا اس کے پاس پہنچا اور وہاں سے ہم روانہ ہوگئے، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید اب دوبارہ ہم ایک دوسرے کے قریب جارہے ہیں، شاید اسے اپنے کئے پر پشیمانی ہے، شاید اسے میرے حالات یا جذبات کی نزاکت کا احساس ہوگیا ہے اور وہ مجھے دوبارہ گلے لگانا  چاہتی ہے لیکن یہ میری خام خیالی تھی کیونکہ اس کے دل میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ میرے دل میں بہت کچھ تھا، بہت سارے سوالات میرے ذہن میں اندر ہی اندر مجھے مجبور کررہے تھے کہ اس سے پوچھ لوں کہ آخر وہ ایسا کیوں کررہی ہے؟ مجھ سے ایسی کیا غلطی ہوگئی ہے کہ اس نے ایک سیکنڈ میں سالہا سال کا بنایا ہوا پیار کا رشتہ توڑ دیا؟ ایسی کونسی قیامت آن پڑی ہے کہ اس نے سب کچھ بھلا کر راسے جدا کردئیے لیکن میں نہ کرسکا۔ اس نے مجھے دعوت دی کہ اسے بھی بھوک لگی ہے اور شام کا کھانا اکھٹے کھاتے ہیں۔ میں بھلا اسے کیسے انکار کرسکتا تھا اور پھر ہم وہی گئے جہاں اکثر شام کو ہم دوسرے دوستوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں سے گزرتے وقت اکثر میرے آنکھوں سے آنسو خودبخود نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔

وہاں جاتے وقت ساتھ گزارے ہوئے ہر لمحے نے مجھے اندر ہی اندر آوازیں دیں کہ اس سے کہو اپنے چاہنے والے دل کو نہ توڑے۔ اس سے پوچھو کہ کدھر ہیں وہ سارے وعدے جو تم دونوں نے کئے تھے؟ اس سے پوچھ کہ آخر کیوں اس نے تمہیں بھلادیا؟ لیکن میں نے اپنے دل و دماغ کو سمجھایا کہ نہیں تم ایسا کچھ نہیں پوچھوں گے کیونکہ بہت دنوں بعد تو اس کی دید نصیب ہوئی ہے، یہ سارے لمحات پیار اور محبت سے گزاریں گے اور پھر ہم اسی جگہ بیٹھ گئے جہاں ہم نے سینکڑوں دفعہ کھانا کھایا تھا، چائے پی تھی اور دلوں میں بسے ارمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کئے تھے۔ وہاں بیٹھتے ہی ایک بار پھر مجھے احساس ہوا کہ ایک بار فقط ایک بار اس سے پوچھ لینا چاہئیے کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہے لیکن پھر خود کو روکے رکھا۔ اس کی جاب ختم ہوگئی تھی اور دوسرے جاب کی تلاش میں تھی جو جلد ہی ملنے والی تھی، میں نے اسے تسلی دی کہ مجھے اس کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے اور جلد ہی جاب مل جائے گی جو مل بھی گئی۔وہاں بیٹھے، کھانا آرڈر کیا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کارڈز (تاش) کھیلنے آتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں ! بس ایک ہی کھیل آتا ہے اور پھر اس نے کارڈز کو شفل کرتے ہوئے کھیل کا آغاز کرلیا۔ وہ جب بھی اپنی باری لیتی تھی میں اس کے نازک ہونٹوں، گھنے بالوں اور ابھری ہوئی گالوں کو دیکھتا رہتا تھا۔ ٹھنڈ بہت زیادہ تھی لیکن مجھے کچھ محسوس نہیں ہورہا تھا، اس نے پوچھا کہ ٹھنڈ کچھ زیادہ نہیں؟ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا "ہاں آج کچھ زیادہ ہی ہے"۔ اس نے دبے ہونٹوں میں مسکراتے ہوئے کہا "چلو! اب تمہاری باری ہے"۔ میں نے کارڈ پھینکتے ہوئے کہا میرے پاس وہ نہیں جو سامنے پڑے ہیں۔ ایسا نہیں تھا، بلکہ میں اس سے جیتنا نہیں چاہتا تھا اور جو بھی کارڈ پھینکتی میں اس کے خلاف کارڈ پھینکتا تاکہ وہ جیت جائے اور میں ہارجاؤں۔
وہ سمجھ گئی کہ میں کھیل نہیں کھیل رہا بلکہ اس کو جتوارہا ہوں، کچھ ہی لمحوں بعد وہ تمام کارڈز میز کے اس پار پھینک کر غصے سے اٹھ کر چلی گئی اور کہا کہ مجھے نہیں کھیلنا۔۔ میں ہنستا رہا اور اس کا غصہ اور زیادہ ہوتا گیا۔ مجھے اس کے غصے میں بھی پیار نظر آرہا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید وہ اب بھی مجھ سے پیار کرتی ہے، شاید وہ اب بھی چاہتی ہے کہ گاڑی میں بیٹھ کو وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر کچھ لمحوں کے لئے آنکھیں بند کردیں۔ شاید وہ اب بھی چاہتی ہے کہ ہم کسی گھنے جنگل میں واک پر چلے اور وہ مجھے پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہے، "میں تم سے پیار کرتی ہوں"۔ ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا یہ میرا وہم تھا، وہ سراسر ایک بدلی ہوئی لڑکی تھی جو شاید کسی اور کے خیالوں میں گم ہوگئی تھی اور مجھے بس اس قدر جاننا چاہتی تھی جب اسے ضرورت ہو توہ میں حاضر ہوجاؤں کیونکہ میں نے زندگی بھر کبھی اسے کسی چیز کے لئے 'نا' نہیں بولا اور شاید آگے بھی نہ بول سکوں۔
میں نے اسے سمجھا بجھا کر پھر کرسی پر بٹھا کر کہا چلو اب گیم کھیلتے ہیں اور پھر کارڈز کھیلنے لگے۔ 12 کب بج گئے ہمیں پتہ ہیں نہیں چلا ۔ کم از کم مجھے پتہ نہ چل سکا کیونکہ میں اسے مہینوں بعد دیکھ رہا تھا اور ابھی میری آنکھوں کی ٹھنڈک شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس نے کہا، 'اب بہت دیر ہوچکی ہے، چلو گھر چلتے ہیں'۔ کچھ ہی ہفتوں پہلے انہوں نے گھر تبدیل کیا تھا اور میری بدقسمتی کہ مجھے بتایا بھی نہیں تھا۔ مجھے اس کے نئے گھر کا پتہ معلوم نہیں تھا لیکن آج خوشی تھی کہ اسی بہانے اس کی نئی گلی تو دیکھ لوں گا۔ ایک وقت تھا جب وہ اگر بازار سے سبزی بھی لاتی تھی تو مجھے فون کرکے بلاتی کہ مجھے بازار جانا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گھر تبدیل ہوگیا، ساری شفٹنگ ہوگئی لیکن مجھے پتہ نہ چل سکا۔ پتہ نہیں کس طرح اس نے وہ بھاری بھرکم سامان اٹھایا ہوگا یا شاید اب سامان اٹھانے والا کوئی اس کی زندگی میں آیا ہوگا۔۔۔ (خدا نہ کرے)۔
میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور اسے دیکھتے ہوئے بس ایک لمبی سانس لے کر گاڑی روانہ ہوگئی۔ راستے میں اسی کی پسند کا گانا چل رہا تھا، وہ گانا جب ختم ہوجاتا تو میں اس کو دوبارہ چلادیتا کہ بس اس کو یہ احساس ہوجائے کہ اس کی پسند اب بھی میری پسند ہے، اگرچہ اب وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے لیکن اس کا دیا ہوا ہر زخم، ہر درد اور ہر پسند میرے ساتھ اب بھی محفوظ ہے جو زندگی بھر محفوظ رہے گی۔ پلک جھپکتے ہوئے میری گاڑی اس کے گھر کے سامنے رک گئی اور وہ اترنا چاہتی تھی لیکن میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، وہ بھی حیران ہوگئی تو کہا کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے مجھے گھر جانا ہے۔ میں نے بس ایک خواہش کا اظہار کیا کہ بس آخری بار ان کے ہاتھ چھومنا چاہتا ہوں۔ اس کا شکریہ کہ انکار نہ کرسکی اور میں نے آخری بار اس کے ہاتھوں پر ہونٹ رکھ کر ایک لمبا سانس لیا اور اسے رخصت کیا۔

10/25/2018

آئیڈیل پارٹنر


جب پہلی بار اسے دیکھا تو میری آئیڈیل پارٹنر کی تمام خصوصیات اس میں موجود تھی اور ایک بار پھر ایسا لگا کہ یہی میری آئیڈیل پارٹنر بن سکتی ہے، دوستی کا ہاتھ بڑھایا، منظور ہوا اور پھر رفتہ رفتہ اتنے قریب آگئے کہ اس کے بغیر ایک لمحہ گزارنا مشکل ہوگیا۔
میں نے ہمیشہ سے آئیڈیلزم کا پیچھا کیا، زندگی کے کٹھن مراحل طے کرتے ہوئے ہمیشہ ایک ہی سوچ ہر وقت ساتھ رہتی تھی کہ کب ایک آئیڈیل زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ میرا بچپن دیہات میں گزرا جو مجھے بالکل بھی پسند نہیں آیا۔ گریجویشن کے بعد پیسہ کمانے کا خیال آیا تو متحدہ عرب امارات میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں کی رنگین زندگی بھی متاثر کرنے میں ناکام رہی۔ عشق ہوگیا لیکن کامیابی نہیں ملی۔ ہمیشہ مایوسی نے پیچھا کیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ کبھی پیسے کمانے کا خیال نہیں آیا۔ زندگی جس طرح بھی بسر ہورہی تھی میں خوش تھا۔ آج گزر گیا کل کی کبھی پرواہ نہیں کی لیکن کوشش جاری تھی۔ دیہات سے ایک بار پھر شہر آیا اور شہر کی رنگین مزاج لوگوں سے واسطہ پڑا جو کبھی بھی مجھے متاثر نہ کرسکیں۔ ہاں اتنا ہوا کہ میں ان کے ساتھ انہی کی طرح جینے لگا اور ایک بار پھر میں آئیڈیلزم کی طرف مائل ہونے لگا۔
            اس کے ساتھ رہتے ہوئے میں ہمیشہ پرسکون رہتا تھا، جیب میں پیسے نہیں تھے، نوکری جاچکی تھی کچھ بچت تھی جس پر گزارا ہورہا تھا لیکن میری زندگی شاہانہ تھی، کبھی بھی کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں کی شاید میری سب ضروریات اس کے ساتھ ہونے کے بعد ختم ہوگئی تھیں۔
            اس سال میری سالگرہ پر انہوں نے مجھے سرپرائز دیا، ایک ایسا سرپرائز جس کے بارے میں کبھی زندگی میں نہیں سوچا تھا۔ پہلے رلایا اور پھر ایک ایسی سرپرائز پارٹی رکھی کہ میں خوشی سے رونے لگا تھا لیکن اس نے مجھے رونے نہیں دیا۔ اس نے مجھے سینے سے لگایا اور پیار سے ماتھے پر چھومتے ہوئے کہا کہ میں یہی چاہتی تھی کہ کچھ حسین پل ساتھ گزار کر اس دن کو ہمیشہ کے لئے یاد رکھو۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی، کبھی بھی، شاید ساری زندگی میں میری سالگرہ پر ایسی خوشی دوبارہ نہیں ملے گی۔ میں نے جب جب اس کو دیکھا اس میں اپنے آپ کو پایا۔ میں نے جب جب اس کو سنا، اس میں اپنی کہانی سنی، میں نے جب جب اس کو محسوس کیا اس میں اپنے دل میں چھپے درد محسوس کئے۔ میں نے جب بھی اس کے ساتھ بات کی ان میں خلوص، محبت اور ساتھ نبھانے کے جذبات تھے۔ میں نے جب بھی اس سے ہاتھ ملایا دل کو ٹھنڈک ملی۔
            وہ اب نہیں لیکن میں نے ایک لمحے کے لئے بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا، شاید یہ میری غلطی یا خوش فہمی ہو کہ وہ واپس ضرور آئیگی۔ اس نے ایک دن کہا بھی تھا کہ دنیا میں ہر کوئی خودغرض ہے، کوئی پیار بھی کرے تو خودغرضی یعنی اپنے سکون کے لئے، کوئی ساتھ بھی ہو تو اس میں مفادات کی جنگ آجاتی ہے۔ اس دن وہ عجیب عجیب باتیں کررہی تھیں، میں نے اسے کہا کہ مجھے ڈرارہی ہو، کیا تم بھی ایک دن مجھے چھوڑ کر ایسے چلی جاؤگی؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہاں لیکن ایک بات ضرور کہی کہ اس دنیا میں ہر انسان اپنے بارے میں سوچتا ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ سب سے بہتر ہو، ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کا مقام سب سے اوپر ہو اور ایسے میں اگر کسی پیار کرنے والے کو اس سے بھی اچھا کوئی ملے تو اسے کوئی ملال نہیں ہوگا کہ کوئی اسے چھوڑ دیں۔ میں ڈرگیا اور اس کو چپ ہونے کو کہا لیکن وہ ہنس پڑی اور کہا، "بڈی یہ دنیا ایسی ہی ہے، یہاں کوئی بھی کسی کا ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا، جب بھی کوئی بہتر مل جاتا ہے تو پہلے والے کو چھوڑنا پڑتا ہے"۔ میں نے اس دن یقین نہیں کیا کیونکہ وہ میری آئیڈیل پارٹنر تھی، ہم شب و روز ساتھ رہتے تھے، گھنٹوں گھنٹوں باتیں ہوتی تھی، وہ مجھے دل کا حال سناتی تھی، میں اسے دل کی باتیں بتانے میں سکون محسوس کرتا تھا۔ میں اس کی نزاکت پر فدا تھا۔
            وہ کیوں میری آئیڈیل پارٹنر تھی۔۔۔۔؟ میں نے ہمیشہ اپنے آئیڈیل پارٹنر کی خصوصیات دل میں چھپا رکھے تھے اور کبھی کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیں۔ شاید اب شیئر کروں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ میری پارٹنر دیہی نہیں ایک ماڈرن لڑکی ہوگی، وہ شلوار قمیص سے زیادہ ماڈرن ڈریس پہنتی ہوگی، وہ لڑکوں اور لڑکیوں میں فرق محسوس نہیں کرے گی، وہ میرے سامنے اپنے دوستوں سے گلے ملے گی، وہ میرے دوستوں کے سامنے میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلے گی، وہ میرے دوستوں کے درمیان بیٹھ کر اسی طرح محسوس کرے گی جس طرح وہ میرے ساتھ کرتی ہے، اگر وہ کوئی نشہ بھی کرتی ہے تو مجھ سے چھپ کرنہیں بلکہ میرے سامنے میرے ساتھ کرے گی۔ میں خود اس کے لئے سگریٹ لے کر دوں گا اگر وہ پینا چاہے تو۔ وہ گھر میں عام کپڑے نہیں بلکہ لڑکوں والے ٹراؤزر یا شارٹ پہن کر میرے ساتھ بیٹھے گی۔ میں اس کے لئے چائے یا کھانا بناؤں گا وہ میرے سامنے کچن میں بیٹھ کر صرف مجھے دیکھے گی اور باتیں کرے گی۔ وہ اگر کسی پارٹی میں جانا چاہتی ہے اور میں نہیں جانا چاہتا تو میں خود اسے ڈراپ کروں گا، واپسی پر اگر رات کے تین بجے بھی وہ آنا چاہے تو مجھے کال کرے گی اور میں اسے گاڑی میں واپس لے کر آؤں گا۔ مجھے اپنے آپ سے زیادہ اس پر اعتماد ہوگا اور اسے مجھ پر خود سے زیادہ اعتماد۔ ہمارے درمیان کوئی بھی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہوگی۔ کوئی اگر اسے بری نظر سے بھی دیکھے تو وہ اس پر خاموش نہیں رہے گی، اس کا جواب دے یا مجھے بتائیں گی کہ فلانے نے اسے یہ بات کہی، یہ میسیج کیا، اس کا جواب کیسا ہونا چاہئیے۔ یہ اور ایسی کئی خصوصیات جو میں ایک آئیڈیل پارٹنر میں ڈھونڈرہا تھا وہ اس میں موجود تھی اسی لئے وہ میری آئیڈیل پارٹنر ہے اور رہے گی۔
            اگرچہ اب وہ میرے پاس نہیں لیکن اس کی یادیں، اس کی باتیں، اس کی ادائیں اب بھی میرے ساتھ صبح شام رہتی ہے۔ اس کی ایک خاص خوشبو ہے جو میں نے اسے بھی نہیں بتایا، اب بھی وہ خوشبو میرے ساتھ رہتی ہے۔ اور نہیں تو اس کے کپڑوں سے آنے والی خوشبو ہر رات میرے ساتھ سوجاتی ہے۔ اس کا دیا ہوا وہ شرٹ اب میں استعمال نہیں کرتا کیونکہ اگر میں اسے استعمال کروں گا تو وہ پرانا ہوجائیگا۔ میں جب بھی صبح کپڑے بدلتا ہوں تو اس شرٹ کو چھوم کر دن کا آغاز ہوجاتا ہے۔ رات کو سوتا ہوں تو اس کا وہ کالا دوپٹہ جو اب بھی میرے ساتھ ہے، سر پر ڈال کر سوجاتا ہوں کیونکہ وہ میری آئیڈیل پارٹنر تھی، ہے اور رہے گی۔ شاید اس کے لئے میں ایک آئیڈیل پارٹنر نہیں تھا اسی لئے وہ زیادہ عرصہ میرے ساتھ نہیں رہی لیکن میری زندگی میں اب اس کے علاوہ کوئی نہیں اور نہ کسی کو آنے کی اجازت ہے کیونکہ آئیڈیل ایک ہی ہے اور رہے گی۔وہ بھی شاید آئیڈیلزم کی تلاش میں نکلی ہے اور مجھے خوشی ہوگی اگر اسے اس کا آئیڈیل پارٹنر مل جائے کیونکہ مجھے اپنے سے زیادہ اس کی خوشی عزیز ہے۔ وہ اگر اپنے آئیڈیل پارٹنر کی تلاش میں کامیاب ہو تو میں اس کی یادوں کے سہارے ہی جی لوں گا۔

10/01/2018

ژوند اوس ښه شوے دے



ګرانې سلامونه او احترامات

هيله لرم روغه جوړه به يې ۔ ۔ نه پوهېږم څنګه ستا مننه وکړم چې زما د زېږون ورځ لا هم ياده ساتې۔ ستا ډالۍ هم رارسېدلې وه، نه مې ورته کتلے شو او نه مې ترې سترګې اړولې شوې ځکه چې په لويه موده پس مې ستا د لاس نخښه په لاس راغله۔ ما به د ځان سره سوچ کولو چې دا به تا هم په لاسو کښې اخستې وي، کېدې شي ښکل کړې دې هم وي۔ ما هم ډېره ډېره ښکل کړه او بيا مې د ځان سره هم د هغه نخښو په منځ کښې کېښودله چې زما پرې ژوند تېرېږي۔ دا به تر څو وي نه پوهېږم خو چې کله هم له کاره راشم نو هغه المارۍ ضرور ګورم چې پکښې ستا د لاس ټولې نخښې پرتې دي۔ ستا خطونه هم ټول سمبال پراته دي، يو يو لفظ يې چې ګورم نو اوښکې په خپله له سترګو روانې وي، دا زما په وس کښې نه ده۔ کېدې شي په دې لفظونو ستا زړۀ هم خفه شي خو څه وکړم د ژوند کړمو راته دومره ازغي په لار کښې خواره کړي دي چې يو يو راټولووم، دوه دوه نور پېدا کېږي او لا هم دغه د ازغو ډک سفر روان دے خو نن درسره د زړۀ يوه خبره شريکووم او غواړم چې ته هم دا رنګ اميد په زړۀ کښې ضرور پېدا کړې۔
            ګرانې !
                        نن سبا زما زړۀ له ډېر مثبت سوچونه راځي، نه پوهېږم ولې خو داسې ښکاري چې زمونږ د ژوند سفر ډېر ژر يو کېدونکے دے، دا به څنګه کېږي، او کېږې به هم يا نه ؟ خو داسې ښکاري چې څه نه څه لار زمونږ د جدايۍ د سفر ختمولو لپاره جوړېږي۔ دا هم ټيک ده چې د کورنيو ترمنځ جګړه، په پښتنو کښې د مينې دښمني، د رواجونو زنځيرونه او بيا د يو داسې تن ته خپل ځان سپارل چې ورسره نور خلک هم تړل شوي دي، دا ډېره ګرانه بلکې د ناممکن ترحده ګرانه ده خو زما زړۀ لا هم زورور دے، نه مني چې ګنې دا دومره لوے سفر به يواځې تېرېږي۔۔۔۔ زما يقين دے چې ستا په زړۀ کښې به هم دا اميد ضرور وي۔۔ بس دعا کوه چې دا خوب رښتيا شي۔

            ګرانې ! ته ما ته نه وايې چې ته څومره ګران ژوند تېروې خو زۀ خبرېږم، زۀ اوس هم هغه کوڅې ته راځم چې تا به د دېوال په چواندي کښې ما ته په سترګو سترګو کښې سلام وکړو او بيا به دې د واپس تللو اشاره وکړه، نن د سلام څوک نشته خو چې زۀ کله هم راشم نو د هغه چواندي سره ودرېږم، ژاړم نه ځکه چې په خواوشا کښې هم ډېر خلک ولاړ وي، که ژاړم نو بيا د پښتو او پښتنو روايتونه، غېرت او ننګ رابېدار شي او بيا به څه کېږي له هغې ته هم خبر يې او زۀ هم ۔۔ بس د زړۀ د تسلۍ لپاره يو دوه اوښکې هلته ضرور توې کړم او بيا واپس راځم ۔۔ نن هلته زما د هرکلي لپاره څوک نه وي او نه راته څوک په مخه ښه وايي خو بيا هم زړۀ نه صبرېږي نو ځکه راځم ۔۔۔۔ چې په دې رانه خفه نه شې ۔۔
            رښتيا ستا د زېږون ورځ تېره شوي ده خو زۀ په داسې حال ووم چې نه مې درته ډالۍ دروړله، نه درغلم او نه مې درته خط درولېږو ۔۔ زما ژوند نور هم ګران شوے دے، يو اړخ ته مې د خلکو رويې ژړوي نو بل اړخ ته د روزګار هم خوند نشته۔۔۔ بې روزګارۍ راته لا نور غمونه په سر اچولي دي خو ته خفه کېږه مه او مه سوچونه کوه ۔۔ دا هر څه به ټيک شي۔ ته خوشحاله اوسه ۔۔ بس د زېږون ورځ دې مبارک او بختوره شه او اميد دے چې په راروانه د زېږون ورځ کښې به دې ضرور وينم ۔۔ بلکې خامخا به دې وينم۔۔
            زما د تصوارتي دنيا ملکې زما د زړۀ په باغ د ګلونو څادر تا خور کړے وو، لا هم خور دے او دا به هم داسې خور وي، که زۀ نه هم يم چې بل څوک د دې څادر مالک نه کړې ۔۔ بس دغه يو خواست کووم۔۔

ستا په نوم ژوندے
صرف او صرف ستا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

9/30/2018

میری یاد آتی ہے؟

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا تھا کہ کوئی تو ہوگا جو اس بے روح،بے جان اور بے سکون انسان کی زندگی میں جنون کی حد تک مستی لاسکتا ہے، کوئی تو ہوگا جو اس بے سروسامان کی زندگی گزارنے والے شخص کے دل میں بسے ارمانوں پر پھولوں کی چادر چڑھانے سے پہلے ایک بار انہیں گنگنانے کا موقع دے گا۔ کوئی تو ہوگا جو تنہائی کو اپنا سب سے بڑا دوست ماننے والے اس شخص کو تنہائی کی اس مرض سے نجات دلائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ شخص مل گیا۔
            کہانی اتنی بھی پرانی نہیں جتنی لگ رہی ہے لیکن اسی شہر کے انہی راستوں پر جاتے ہوئے میں اس سے ملا، آنکھیں ملی پر کچھ احساس نہیں تھا کہ کیا کچھ ہونیوالا ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، اس نے میری طرف دیکھا اور قصہ تمام ۔ ۔ ۔ لیکن قصہ تمام نہیں تھا یہ میرا وہم تھا کہ قصہ تمام ہوچکا ہے۔ ایک بار پھر میں نے اسے اک محفل میں دیکھا اور دیکھتے ہی اس کی خوبصورتی پر دل فدا ہونے ہی والا تھا کہ وہ میرے قریب آکر کہنے لگی ۔ ۔ ۔ یہ سامنے بیٹھا شخص مجھے گھور رہا ہے ۔۔۔ یہ کون ہے؟ ۔۔ میں خود حیران و پریشان کہ میں جن خیالوں میں گم تھا انہی سے جگا کر مجھے جلایا جارہا ہے ۔۔ دل ہی دل میں سوچ کر اس بندے کو دو تین تھپڑ بھی رسید کرچکا تھا لیکن میں نے بس اتنا ہی جواب دیا کہ وہ گھور نہیں رہا، وہ شاید تمہیں پہلی بار دیکھ رہا ہے اسی لئے زیادہ گھور رہا ہوگا۔ محفل برخاست ہوئی اور میں اس کے خیالوں میں گم گھر کی طرف لوٹنے لگا۔۔ پورے راستے پر اسی سوچ نے بے چین کردیا تھا کہ یہ مجھے کیا ہونیوالا ہے؟ میرے دل کی دھڑکنیں تیز کیوں ہوگئی ہیں؟ میں اتنا بے قرار کیوں ہو؟ مجھے کسی کی طلب کیوں ہورہی ہے؟ شاید میں پیار کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔؟ نہیں نہیں ۔۔۔۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ تجھے پیار نہیں ہوسکتا۔۔ ابھی تو تمہیں بڑا آدمی بننا ہے۔۔ ابھی تو تمہاری منزل بہت دور کھڑی ہے۔۔ ابھی تو تمہیں بڑا فاصلہ طے کرنا ہے۔۔ یہ تو صرف شروعات ہیں تیری زندگی کی ۔۔ صبر کر اور ان پیار کے چکروں میں نہ پڑ ۔ ۔ ۔ خود کو سمجھا بجھا کر گھر پہنچ ہی گیا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجھی ۔ ۔ ایک ان نون نمبر سے کال تھی ۔۔ میں نے فون اٹھایا (حالانکہ میں کبھی بھی ان نون نمبر کے کالز نہیں اٹھایا)۔۔ دوسری طرف سے ایک بہت ہی پیاری آواز میں جب ہیلو سنا تو میری سانس رک گئی۔۔ میں دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ چابی میرے ہاتھ سے گرگئی اور دل کی دھڑکن اور تیز ہوگئی۔ میں نے پوچھا۔۔ "کون" ۔۔ بولی "میں ہوں" ۔۔ میں نے پوچھا "آپ کون" ۔ بولی "ارے جی مجھے بھی نہیں پہچانتے؟؟ ابھی ابھی تو آپ سے مل کر گھر آئی ہوں ۔۔" بس میری سانس رک گئی اور وہی ہوا جس کا  خدشہ تھا۔
            ہیلو سے شروع ہونیوالا یہ سلسلہ پھر رات سے لے کر صبح تک کالز اور میسجز تک جاپہنچا۔ کچھ ہی دنوں میں اس کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ کسی بھی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ دل بس اسی کی سوچ میں ہر وقت گم، اور اس سے ملاقات کے بہانے تلاش کرتا تھا۔ پوری پوری رات وہ مجھ سے شاعری اور میرے لکھے ہوئے افسانوں کی فرمائشیں کرتی تھیں۔ میں جب بھی اپنی زندگی پر لکھی گئی کوئی تحریر اسے سناتا تھا تو وہ رونے لگتی تھی ۔۔ میں اس کے سامنے اس وقت تک نہیں رویا تھا، بلکہ میں اسے سمجھاتا تھا کہ میری تحریروں کو سنجیدہ نہ لیا کرو، یہ بس تحریریں ہیں اور کچھ نہیں لیکن وہ کہتی تھی نہیں۔۔۔ یہ تم نے کس کے لئے لکھی ہیں؟ میں بات کو بہت ٹالنے کی کوشش کرتا تھا لیکن وہ تھی کہ مانتی ہی نہیں۔۔ اسی بحث میں چھ سات گھنٹے کیسے گزر جاتے مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔ وہ بھی مجھے اکثر کہتی تھی کہ میں نے کبھی کسی سے اتنی لمبی گفتگو نہیں کی، تم پہلے ہو جس سے بات کرتے ہوئے ٹیلیفون بند کرنے کو دل نہیں کررہا۔۔۔ کال بند ہو بھی جاتی تو میسجز کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔۔ صبح کی روشنی تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔
            زندگی اب خوبصورت بن چکی تھی۔۔ میں ایک خوش وخرم انسان کی زندگی پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ مجھ میں زندگی آچکی تھی، اس کے ایک فون کال پر میں اگر میلوں دور بھی ہوتا تو اس کے پاس پہنچ جاتا، وہ بھی شاید چاہتی تھی کہ میں اس کے ساتھ رہوں، اس لئے وہ کبھی کبھار میرے گھر بھی آجاتی، میں اس کے لئے چائے بناتا، کھانا پکاتا تھا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں سے بھی کہتی تھی۔۔۔ "چائے پینی ہے تو اس کے ہاتھ سے پیو، بڑی پیاری چائے بناتا ہے یہ بندہ"۔۔ کئی بار میں نے اس کے لئے پاستہ بنایا جو اسے بہت پسند آیا۔۔ ایک بار میں نے کریلے اور قیمہ مکس کرکے پکائے جس کی تعریف مہینوں تک ہوتی رہی۔
            لیکن زندگی کے موڑ پر مشکلیں ضرور آتی ہیں۔۔۔۔ میری مشکلیں کبھی کم نہیں ہوئی، مگر اس کے آنے سے تمام مشکلیں اور کٹھن مراحل آسان نظر آرہے تھے۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جس انسان کی مجھے تلاش تھی شاید وہ مجھے مل گیا ہے۔ جو ادھورا پن میری زندگی میں برسوں سے ایک مستقل حصہ بن چکا تھا، شاید اب وہ ختم ہونیوالا ہے ۔۔۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔۔۔۔ میں غلط تھا۔۔۔ اور شاید اب بھی غلط ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
            اور پھر وہ دن بھی آیا جب مجھے وہ الفاظ سننے کو ملے جس کی مجھے کبھی امید ہی نہیں تھی۔۔ وہ الفاظ میرے دل پر زخم بناکر چلے گئے لیکن جو زخم اب بھی دل پر موجود ہیں وہ شاید پوری زندگی میرے جسم کا حصہ بنے رہیں گے۔۔۔ اب تو میں سنبھل چکا ہوں یا سنبھل جانے کی ایکٹنگ کررہا ہوں، پر امید ہے جلد ہی میں سنبھل جاؤں گا۔۔ مجھے اس کی عادت سی ہوگئی ہے۔ وہ جب بھی مجھ سے بات کرتی ہے ایک نامعلوم جگہ سے سکون کی لہر اٹھ کر میرے جسم میں سماجاتی ہے۔ اگر وہ مجھ سے تلخ بات بھی کرے، مجھے کبھی تلخ نہیں لگتا بلکہ میں اسے اور بھی انجوائے کرتا ہوں، کیونکہ کچھ بھی ہو مجھ سے بات تو کرتی ہے۔
            اب شاید وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے، شاید اسے کوئی اور بھی مل گیا ہوگا، شاید وہ مجھ سے اچھا ہوگا، شاید اس کے پاس اسے خوش رکھنے کے لئے مجھ سے زیادہ کچھ ہوگا، لیکن مجھے یقین ہے کہ جو پیار اور عزت میرے دل میں اس کے لئے اب بھی ہے وہ اسے زندگی بھر یاد رہے گا۔ کہیں نہ کہیں اسے میری یاد ضرور آئے گی کہ ہاں! اس دنیا میں ایک شخص تھا جس نے اسے کئی راستوں سے روشناس کرایا، جس نے اسے بے انتہا پیار کیا۔۔ جس نے اس سے پیار کے علاوہ کوئی چیز مانگا ہی نہیں۔۔ جو صرف اس کے لئے جی رہا تھا۔ جو صرف اسی کی خاطر اپنی ساری زندگی لٹانے کو تیار تھا، جو صرف اس کی خوشی کے لئے اسے چھوڑنے تک تیار ہوگیا تھا۔ جس نے کبھی بھی اس کے نام یا عزت پر آنچ نہ آنے دیا اور نہ آنے دے رہا ہے۔ جس نے لوگوں کے ذہنوں میں موجود اس کے بارے میں خیالات سے اسے آگاہ کیا۔۔۔۔۔۔ شاید یہ میری غلطی تھی کہ میں نے اپنی خودداری اور عزت نفس تک اس کی خاطر چھوڑدیا تھا۔ مجھے بھی لوگوں نے بہت کچھ بتایا لیکن میں نے اگر یقین کیا تو صرف اس کا۔۔۔۔ اب بھی مجھے یقین ہے کہ میرا پیار اگر سچا ہے تو وہ میرے پاس ضرور آئے گی۔۔ میں نے کبھی اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ میں ساری ساری رات اس کے لئے رویا ہوں۔۔ ساری ساری رات اپنی پرانی تصویریں دیکھ دیکھ کہ گزاری ہیں۔۔ ساری ساری رات میں نے اس کے دیے ہوئے گفٹس کو چھوم چھوم کر گزاری ہیں۔۔ ہر اس بات کو یاد کیا ہے جو اس عرصے کے دوران ہمارے درمیان ہوئی ہے۔۔ ہر وہ لمحہ اپنی تصوراتی دنیا میں لے کر آیا ہوں جو اس کے ساتھ گزارا ہے۔ اب میں اس طرح نہیں، نہ ہی اپنا خیال رکھ رہا ہوں، نہ ٹائم پر کھاتا ہوں، نہ سوتا ہوں۔۔۔ کام میں دل نہیں لگ رہا بس اسی کی سوچ کے ساتھ رہ رہ کر خاموش اور بے جان روح بن چکا ہوں۔۔ یہ میں نے کبھی اسے نہیں بتایا کیونکہ وہ ایسی نہیں تھی۔۔اس نے ہمیشہ میرے دل میں سوچی ہوئی بات کو بھی جانا اور محسوس کیا ہے تو میں کیوں اسے بتاؤں۔۔۔؟ ہاں اتنا ضرور بتایا ہے کہ مجھے اس کی یاد آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے یاد میری آتی ہوگی یا نہیں۔۔۔۔ اسی جواب کا انتظار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رہے گا۔

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.