11/12/2014

خیبر پختونخوا تعلیم کی حالت زار


تعلیم کو اگر کسی معاشرے کی ترقی کا ضامن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ تعلیم ہی ہے جو کسی انسان کو شعور، آگاہی اور ہنر سکھاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کو بھی ایک کاروبار کی حد تک سمجھا اور جانا گیا ہے اور جہاں تک ممکن ہو ہر کوئی، چاہے وہ استاد ہو یا شاگرد، مالی ہو یا نائب قاصد، چوکیدار ہو یا کلرک، ہر کوئی اسکو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ سمجھ کر زندگی کے پہیے کو دھکیل رہے ہیں۔ لیکن تعلیم کو صرف اس حد تک  جانچنا اور سمجھنا تعلیم جیسے مقدس پیشے کے ساتھ ناانصافی ہی نہیں بلکہ اس پیشے کی بے عزتی بھی ہے۔ ہمارے ہاں سکول دو قسم کے ہوتے ہیں یعنی سرکاری اور نجی سکولز۔ سرکاری سکول ہی نہیں بلکہ سرکاری ہر ادارہ صرف نام کا ہی ادارہ نظر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے تقریباًتمام طلباء و طالبات اپنے مستقبل سے بے خبر کسی نامعلوم منزل کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھ رہے ہوتے ہیں لیکن جب انکو پتہ چلتا ہے کہ ہم کس نامعلوم منزل یعنی مستقبل کی طرف جارہے ہیں تو پھر یا تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور یا واپس آنے کے لئے بڑی محنت ومشقت کے ادوار سے گزرنا ہوتا ہے۔خیر یہ تو عام باتیں ہوئی جو ہر کوئی جانتا ہے لیکن کچھ ہی دنوں پہلے ایک ایسا واقعہ ہماری سماعتوں تک پہنچا کہ جس کا براہ راست تعلق نہ صرف ہمارے معاشرے کی ترقی سے ہے بلکہ بہت سو کے مستقبل سے بھی ہے۔ کوہستان میں ایسے اساتذہ جو اپنی ذمہ داریوں سے باخبر ہوکر بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر تھے اور گھر بیٹھ کر محکمہ تعلیم سے اپنی تنخواہیں ٹائم پر لے رہے تھے لیکن جب محکمہ تعلیم کی طرف سے انکو ایک پیغام موصول ہوا کہ براہ کرم اپنے اُس جائز عذر کو ہمارے سامنے بھی لائے جسکے بناء پر آپ  نے اپنی قابلیت اور سکھانے کے ہنر سے اپنے شاگردوں کو پچھلے کئی مہینوں سے محروم رکھا ہوا ہے۔ ان محترم اساتذہ کی تعداد کچھ گیارہ سو کے قریب تھی۔ استاد ہونے کے ناطے بنتا تو یہ تھا کہ محترم اساتذہ صاحبان اپنی غلطی کا اعتراف کرکے تعلیم جیسے مقدس پیشے کے نام دھبا نہ بنتے لیکن انہوں نے وہی کام کیا جو اردو میں کہتے ہیں  '' الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے'' اور ایک اخباری رپورٹ کے مطابق انہوں نے محکمہ تعلیم کے افسران بالا کو متنبہ کیا کہ اگر ڈیوٹی پر حاضری سے لاچار اساتذہ کے خلاف آئے ہوئے شوکاز نوٹس کو واپس نہیں لیا گیا تو ہم آپ کے دفاتر کو جلاکر خاکستر کردیں گے۔خیر یہ تو اساتذہ کی بات ہوئی جو ہمارے لئے نہایت قابل احترام ہیں لیکن دوسری طرف خیبرپختونخوا کی محکمہ تعلیم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پختونخوا میں کل سکولوں کی تعداد 28319 ہیں جن میں سے 27892 سکولز چل رہے ہیں جبکہ 387 تعلیمی ادارے بند پڑے ہوئے ہیں جن میں سے 144 لڑکوں کے اور 223 لڑکیوں کے تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ انہی بند سکولوں میں پشاور کے سکولز بھی ہیں جہاں پر چالیس لڑکیوں کے اور چھ لڑکوں کے سکول بند پڑے ہیں۔ 27892 سکولز میں سے 24 فیصد اب بھی چاردیواری سے محروم ہیں،34 فیصد کوصاف پانی کی فراہمی نہیں،46فیصد کو بجلی کی فراہمی نہیں جبکہ 22 فیصد تعلیمی ادارے باتھ رومز کی سہولتوں سے محروم ہیں۔تعلیمی اداروں میں داخلوں کی بات کی جائے تو پرائمری لیول پہ تقریباً 74 فیصد بچے سکول میں داخل کئے جاتے ہیں۔ مڈل میں یہی شرح 19 فیصد، ہائی سکول (نویں اور دسویں جماعت) میں 8 فیصد جبکہ ہائر سیکنڈری سطح پر داخلوں کی شرح کم ہوتے ہوتے صرف ایک فیصد تک پہنچ جاتی ہے جو کہ یہاں پر رہنے والے ہر انسان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔تعلیمی اداروں کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ صوبہ میں 17967لڑکوں کے سرکاری تعلیمی ادارے جبکہ لڑکیوں کے 10352سرکاری تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبہ میں غیرسرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد 449(لڑکوں کے)،283(لڑکیوں کے) اور 6011(مخلوط) موجود ہیں۔ اسکے علاوہ دینی مدارس کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور انکی تعداد 3795(لڑکوں کے) اور 885(لڑکیوں کے) بتائی جاتی ہیں۔لیکن صوبہ بھر میں اب بھی لڑکوں کے دو اور لڑکیوں کے ستائیس سکولز ایسے ہیں جہاں پر اب تک استاد یا استانی موجود ہی نہیں اور ان سکولوں میں 103 لڑکوں کو جبکہ 1875لڑکیوں کو داخلہ بھی دیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم تعلیم کے معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ صوبائی حکومت کے مطابق گذشتہ سال سے اب تک انہوں نے چالیس سکول تعمیر کئے ہیں لیکن ابھی تک فعال نہیں۔اوپر دئیے گئے معلومات کا مطلب صرف اپنے ارد گرد ماحول میں نظر آنے والی ان خامیوں کی نشاندہی کرنا تھا جو ہمارے بس میں ہوتے ہوئے بھی ہمارے پہنچ سے دور نظر آرہے ہیں اور ہم بحیثیت قوم اپنے بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کرنے سے لاچار نظر آرہے ہیں۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کی بھی اولین فرائض میں سے ہیں لیکن بحیثیت ایک ذمہ دار باپ، ایک ذمہ دار ماں، ایک ذمہ دار بھائی اور ایک ذمہ دار سربراہ کے طور پر ہم اپنے سامنے پڑے کئی مسائل سے چھٹکارا پاسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ کام خلوص دل،ذاتی مفاد سے پاک اور نیک نیتی سے ہو۔ اگر یہی جذبہ اپنایا جائے تو وہ دن دور نہیں جب یہ قوم بھی دنیا کے ترقی یافتہ اقوام کے صف میں کھڑے نظر آرہے ہوں گے۔

Column was published in Daily "Akhbar-e-Khyber" on October 30th 2014

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.