12/10/2014

اک نظر اس جانب بھی

کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ قوموں کی ترقی جن چیزوں کے باعث ہوتی ہے ان میں شعور اور تعلیم سرفہرست ہوتے ہیں اور یہ بات ہر ذی عقل تسلیم کرتاہے کہ اگر تعلیم ہو اور شعور نہ ہو تو ترقی نامی چیز کے کوئی معنی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک اور خصوصاًترقی کے منازل چھونے والے ملکوں میں ہر کوئی اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دینا اپنا فرض سمجھتاہے۔ اسکی ایک مثال بندہ ناچیز کا اپنا مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے۔ دو سال متحدہ عرب امارات میں گزارنے کے دوران کئی تجربات نے ایسا سبق سکھایا کہ سزا نہ پاکر بھی وہ غلطی دہراتے تو یاد آجاتا کہ اسکی سزا کیا ہوسکتی ہے پھر ضمیر کبھی بھی ان چیزوں کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا تھا ۔ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں کیونکہ انسان خطاکا پتلا ہے اور شعور و احساس ذمہ داری کی کمی کا ایک واقعہ یہاں پر عنوان کی مناسبت سے اپنے معزز قارئین کے ساتھ شریک کرنا بہتر سمجھتا ہوں ۔
دبئی میں چونکہ صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے ایک بار ہم اپنی گاڑی میں ایک صاف ستھری روڈ پر جارہے تھے کہ ہمارے ایک دوست نے چلتی گاڑی سے تھوڑا سا کچرا باہر پھینکا۔ کچھ ہی لمحوں بعد ایک موٹر سائیکل ہماری گاڑی کو اشارہ کرتے ہوئے رکی اور ہم سمجھ گئے کہ پولیس (متحدہ عرب امارات میں پولیس کو شرطہ کہاجاتا ہے) نے ہمارے دوست کو کچرا باہر پھینکتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ جلدی سے ہم نیچے اتر کر ان سے بات کرنے لگے لیکن وہ کچھ بھی ماننے کو تیا ر نہ تھا اور مخالفہ (جرمانہ کی پرچی) دینے ہی لگا تھا کہ ہمارے ایک دوست نے وضاحت کردی کہ بندہ مہمان ہے اور ویزٹ ویزے پر آیا ہے آئندہ کبھی بھی نہیں کریں گے ۔ کافی وضاحت اور بحث و مباحثہ کے بعد شرطہ (پولیس)نے صرف وارننگ پر اکتفا کیا اور ہمیں چھوڑ دیا لیکن ہم نے اپنے دوست سے وعدہ لیا کہ جتنے دن ادھر رہنا ہے کبھی غلطی سے بھی یہ حرکت دوبارہ نہیں کرنا۔دبئی میں اگر کسی کو سڑک پار کرنا ہے تو اسکے لئے بھی قانون بنا ہوا ہے اور وہ یہ کہ یا تو انڈر پاس (زیر زمین راستہ) اگر نزدیک ہو تو وہاں سے سڑک پار کرنا ہے اور یا سگنل کے پاس جاکراسکے سرخ ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ پھرجس طرف جانا ہو اس طرف کی گاڑیاں رکنے کے بعد ہی کوئی سڑک پارکرسکتا ہے ۔ اگر کسی نے انڈر پاس کے ہوتے ہوئے چلتی گاڑیوں کے درمیان سڑک پار کرنے کی کوشش کی تو اس کو بھی مخالفہ(جرمانہ) کا ٹیکا لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پر رہنے والے لوگ قانون کی پیروی کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں ۔ لیکن اس معاملے میں شعور سے زیادہ قانون بنانا اور پھر اس پر عمل کروانے کے عناصر زیادہ کارفرما ہیں ۔
اب آتے ہیں پشاور یا پاکستان کی کسی بھی بڑے شہر کی طرف ۔ پشاور کی صورتحال کے حوالے سے بھی ایک کہانی آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گا۔ گزشتہ دنوں پشاور میں کچھ دن گزارنے کا موقع ملا لیکن وہاں کے حالات اور لوگوں میں شعور و آگاہی کی انتہا کو دیکھ کر بے اختیار امارات کی یاد ستانے لگی ۔ پشاور صدر کے ایک نہایت مصروف شاہراہ سٹیڈیم روڈ (قیوم سپورٹس کمپلیکس کے سامنے سے گزرنے والا راستہ) پر لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کے ہوتے ہوئے فٹ پاتھ پہ لوگ بیٹھ کر رفع حاجت کررہے تھے۔ یہ منظر میرے لئے اگر نئی نہیں تو پرانی بھی نہیں تھی کیونکہ پشاور کے اتنے بڑے اور مصروف شاہراہ پر لوگوں کی بے حسی اور بے شعوری پر افسوس کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔ رفع حاجت کرتے ہوئے لوگ بغیر کسی جھجک بیٹھ بھی جاتے ہیں اور بغیر ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے ایک وقت پر دو یا دو سے زیادہ افراد فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنے تقاضے پورے کررہے تھے۔
اب اگر دونوں شہروں، ان کے قوانین، صفائی اور عوامی شعور کا جائزہ لیا جائے تو صرف یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہم لاکھ تبدیلیاں لائے، سیاسی رہنماؤں کو بدلیں، سیاسی چال بدلیں، فیشن میں آگے جائیں، سڑکیں بنائیں، میٹرو بس منصوبوں پر دن رات کام کریں لیکن جب تک عام سطح پر شعور و آگاہی پیدا نہ کی ہو تب تک ترقی کے خواب خواب ہیں رہیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ شعور کیسے آئے گا؟ تو اس کا جواب ہر شخص کے پاس ہونا چاہئے اور ہے بھی کیونکہ ہر کوئی اپنے لئے کبھی بھی بُرا نہیں سمجھتا تو ملک و قوم کے لئے کیوں کر سوچے؟ ترقی و خوشحالی تب ہی آسکتی ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو نہ صرف ذمہ دار شہری ثابت کریں بلکہ ہمیں اپنے فرض و ذمہ داریاں پہچاننے اور نبھانے ہوں گے تب ہی ہم اس مقدس مٹی کا حق ادا کرسکیں گے۔ اگر یہ نہیں تو پھر اس ملک و قوم کا خدا ہی حافظ ہو۔
The Column was published in Daily ''Akhbar-e-Khyber'' on November 30th, 2014

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.