12/10/2014

گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو۔۔۔۔۔۔

زندگی میں جب بھی فلم دیکھنے کا موقع ملا تو عموماً فلم کو جلدی سے جلدی دیکھنے کی عادت سی ہوگئی ہے یہی وجہ ہے کہ میں تین گھنٹے کی فلم زیادہ سے زیادہ دس پندرہ منٹ میں دیکھ لیتا ہوں لیکن کچھ فلمیں ایسی بھی ہوتی ہے جوہماری زندگی میں شامل کچھ مسائل اور چیلنجز پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی فلم دیکھنے سے انسان بہت کچھ سیکھ جاتا ہے۔ میرامطلب ہرگز یہ نہیں کہ بندہ بس فلمیں ہی دیکھتا رہے اور اسی کے بل بوتے پر زندگی کے اصول بناتے رہے لیکن اگر فارغ وقت میں ایک آدھ فلم دیکھی جائے تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں۔
ادب یعنی لٹریچر کے بارے میں ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ پہلی قسم وہ جو لوگوں کو اس دنیا سے ایک خیالی سی دنیا میں لے کر جائے اور لوگ بھی کچھ وقت خیالی دنیا میں حقیقی دنیا سے دورگزارنا چاہتے ہیں جبکہ ادب کی دوسری قسم وہ ہے جس سے انسان کو معلومات، علم، شعور اور آگاہی ملتی ہے۔ اسی بناء پر فلمیں بھی بنتی ہیں کچھ فلمیں سبق آموز ہوتی ہیں تو کچھ صرف ٹائم پاس کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں زیادہ تر لوگ فلمیں صرف اس لئے دیکھتے ہیں کہ انکا وقت اچھا گزرے لیکن اس کے برعکس انسانوں کا ایک بڑا حصہ اس کو وقت کا ضیاع کہتے ہیں۔ خیر کبھی کبھار ایک فلم انسان کو وہ کچھ سکھادیتی ہے جو اسکی زندگی بدل سکتی ہے یا اگر زندگی تبدیل نہ بھی کرے تو کم از کم زندگی گزارنے کے کچھ اصول سکھاسکتے ہیں۔ میں چونکہ ذاتی مشاہدات پر زیادہ یقین رکھتا ہوں اسی لئے یہاں پر بھی ایک ایسی ہی سبق آموز فلم کا تذکرہ کرنا چاہوں گاجس میں نہ صرف ہمارے اس نظام کو زیر بحث لایا گیا ہے بلکہ اس سے چھٹکارا پانے کا آسان حل بھی بتایا گیا ہے۔
قصہ کچھ یو ں ہے کہ چار دوست نظام کو بدلنے کے لئے کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس میں انکی شناخت بھی ظاہر نہ ہو اور عوامی مسئلے بھی حل ہو۔ ان چار میں سے ایک صحافی، دوسرا ڈاکٹر، تیسرا کمپیوٹر انجنئیر اور چوتھا مکینک ہوتا ہے۔ وہ دن کے وقت جہاں پر بھی کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں تو رات کو بھیس بدل کر اور چہرے ڈھانپ کر زیادتی کرنے والے شخص کے پاس جاتے ہیں اور اسکی کمزوری یا اسی زیادتی کو کیمرے کی آنکھ سے ریکارڈ کرلیتے ہیں پھر اس ویڈیو کی سی ڈی اپنے صحافی دوست کے ذریعے مختلف ٹی وی چینلز پر دکھاتے ہیں اور اس طرح اس برائی سے سارے قوم کو چھٹکارا دلا تے ہیں۔ جن مسائل کی طرف ان لوگوں نے توجہ دلائی ہے ان میں کرپشن، رشوت،ٹریفک پولیس کی زیادتیاں، گاڑیوں کا زیادہ کرایہ لینا، پنشن لینے کے لئے ضعیف افراد کو رشوت دینے پر مجبور کرنا اور رشوت دے کر کسی کی ٹرانسفر کرانا جیسی برائیاں شامل ہیں۔
یہاں پر لوگ یہ بھی اعتراض کرسکتے ہیں کہ کیونکر کسی کی پگڑی اچھالی جائے یا یہ طریقہ ہی غلط ہے کیونکہ قانون ہے اور قانون کے رکھوالے بھی تو پھر کوئی کس طرح قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے؟ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اگر قانون ہے اور قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے غلط راستے استعمال کرنا پڑے تو اس سے بہتر ہے کہ اسی ادارے کے ایک شخص کو سبق سکھائی جائے اور عمر بھر کے لئے پوری قوم کو اس برائی سے نجات دلائی جائے۔اب اسی سوچ پر چل کر اگر ہم اپنے روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے مسائل عام لوگوں یا ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں تک پہنچائے تو ہم نہ صرف اپنی زندگی میں سکون لاسکتے ہیں بلکہ ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹتی ہوئی کئی مسائل سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
مثالوں سے وضاحت سے مسئلہ اور بھی آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتا ہے۔ فرض کریں ہم ایک سرکاری یا غیرسرکاری دفتر میں جائے اور ہمارا کام قانونی طریقے سے نہ ہورہا ہو یا ہمیں کچھ ناجائز طریقے اپنانے پر اکسایا جارہاہو، جو اکثر ہمارے ساتھ ہوتے رہتے ہیں، تو اسی مسئلہ یا بات چیت کو تھوڑا سا ریکارڈ کرکے ان لوگوں تک پہنچایا جاسکتا ہے جو اسکو پورے قوم کے سامنے لاسکتے ہیں(آج کل موبائل ہر کسی کے پاس ہے جن میں کیمرہ کے ساتھ ساتھ آواز ریکارڈ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے تو کیوں نہ اس سے تصویریں نکالنے یا گانیں سننے کے علاوہ کوئی فائدہ بھی لے)۔ اب ہر کسی کو یہ سوچنا ہوگا کہ کس طرح اپنے مسائل کو سامنے لا کر ان کا قانونی حل نکالا جاسکتا ہے۔ بس تھوڑی سی تکلیف یہی کرنی ہوگی کہ عقل و شعور کو استعمال کرکے مسئلے کو اچھالنا ہوگا پھر دیکھے کس طرح گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلتی ہے اور اگر نہ نکلے تو پھر تو ٹیڑھی کرنی ہی پڑتی ہے۔

ہمارے ہاں نظام سے شکوے تو بہت ہوتے ہیں، لوگ تبدیلی بھی چاہتے ہیں،دوسروں سے اچھے کام کے کرنے اور برا نہ کرنے کی امید بھی رکھتے ہیں لیکن اگر کسی کے ساتھ انفرادی طور پر کوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ اسکو ہرجائز و ناجائز طریقے اپنا کر جلد سے جلد نمٹانے اور اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہم اگر ایک بار کسی ناجائز طریقے سے اپنے کام نمٹائے تو پھر اسی مسئلہ میں دوسرے لوگ بھی وہی طریقے اپنائیں گے اور اس طرح برائی سے برائی پیدا ہوتی رہے گی۔ پھر ہم ریاست سے گلے شکوے بھی کرتے رہیں گے اور سارے عمر مار بھی کھاتے رہیں گے۔ کیونکہ جب تک انفرادی طور پر ہم میں اپنے مسائل کے حل بارے سوچ پیدا نہیں ہوگی تب تک تبدیلی آسکتی ہے نہ انقلاب۔

The Column was published in Daily "Akhbar-e-Khyber'' On December 7th 2014

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.