1/04/2015

متاثرین بدامنی فنڈ کا قیام ................. ناگزیر

دنیا میں نائن الیون کے بعد ایک واضح اور بڑی تبدیلی آئی جس نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے کئی ترقی پذیر و ترقی یافتہ ممالک کو بے شمار اذیتوں سے دوچار کیا۔ پاکستان اور افغانستان ان ممالک میں سرفہرست ہیں جودہشتگردی کے اس واقعہ سے برائے راست متاثر ہوئے۔2001ء کے دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعدامریکہ اور پاکستان کے تعاون سے جناب حامد کرزئی کی سربراہی میں ایک جمہوری حکومت بنی لیکن شدت پسند گروہوں کا وجود امریکہ، افغانستان اور پاکستان کے لئے ہمیشہ درد سر بنا رہا اور اب تک کئی قوتوں کو زیر کرنے میں مذکورہ تینوں ممالک تقریباً ناکام رہے ہیں۔پاکستان میں پہلا خودکش حملہ(میرے ناقص علم کے مطابق) اسلام آباد میں مصر کے سفارتخانے پر19نومبر1995ء کو کیا گیا جس میں30سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 40سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ دوسرا خودکش حملہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر6 نومبر2000ء کو کیا گیا لیکن اسکے بعد یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں 50 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشتگردی اور شدت پسندی کی جو لہر شروع ہوئی ابھی تک اس کے اثرات جاری ہیں۔ پاکستان کے شمالی و جنوبی وزیرستان، اورکزئی ایجنسی، سوات، باجوڑ ایجنسی اور ملاکنڈ کے مختلف علاقوں میں پاک فوج کو شدت پسندوں اور دہشتگردوں کے خلاف آپریشن بھی کرنا پڑا اور اس سلسلے میں باجوڑ،سوات ، شمالی وجنوبی وزیرستان اور ضلع ملاکنڈ کے کئی علاقوں میں اب بھی فوج ان شدت پسندوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ عوامی سطح پر ان آپریشننز کی ایک طرف اگر حمایت کی گئی تو دوسری طرف ان سے متاثرہ افراد کو گھروں سے نکل جانے (یعنی نقل مکانی کرنے ) کی قربانی بھی دینی پڑی۔ایک رپورٹ کے مطابق2008 ؁ء سے اب تک پورے پاکستان میں مختلف واقعات کے دوران تقریباً 12409 افراد کی موت واقع ہوچکی ہے جن میں سے 4345کا تعلق پختونخوااور 4346کا تعلق قبائلی علاقہ جات سے ہے۔ اسی طرح 2008 ؁ء سے اب تک مختلف واقعات میں زخمی ہونیوالے افراد کی تعداد 31345بتائی جاتی ہے جن میں سے 11056کا تعلق پختونخوا جبکہ8644 افراد کا تعلق قبائلی علاقہ جات سے ہے۔ اسی طرح 2008 ؁ سے اب تک بلوچستان میں تقریباً1759افراد جاں بحق جبکہ5729افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ یہی دو وہ خطے ہیں جو اکثر و بیشتر بدامنی کی لپیٹ میں آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پوچھنے والے اکثر یہ خطے بھول جاتے ہیں ۔سوات میں جب پاک فوج نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تو لاکھوں کی تعداد میں پشتونوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر مردان، پشاور ، نوشہرہ اور چارسدہ کی طرف نقل مکانی کی جہاں پر وہاں کے رہنے والوں نے انصارمدینہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اپنے پشتون بھائیوں کی دل کھول کرمہمان نوازی کی اور انکو اپنے گھروں، حجروں اور مسجدوں میں رہنے کے لئے جگہ دی ۔بدقسمتی سے دہشتگردی یا شدت پسندی کی ہوا جب بھی آتی ہے تو پشتونوں ہی کی سرزمیں پر برا جمان ہوجاتی ہے۔ افغانستان ہو یا پختونخوا وقبائلی علاقہ جات،پاکستان میں زیادہ تر شدت پسندی اور دہشتگردی کے واقعات پشتونوں کی سرزمیں پر ہی واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دہشتگردی کی لہر سے زیادہ متاثر ہونیوالاپشتون قوم ہی ہے بلکہ انکی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ابھی تک صوبائی یا مرکزی سطح پر ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے کہ ان لوگوں کو مستقل بنیادوں پر مدد فراہم کی جاسکے۔مذکورہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والے آپریشن کے باعث آج بھی 30لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد پختونخوا کے مختلف علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور انکو غذائی ضروریات کے علاوہ کئی اشیاء کی قلت کا سامنا ہے ۔ حکومت وقت اپنی کوششوں کے باوجود بھی انکی تمام ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب نظر نہیں آرہی۔ اس سلسلے میں کئی ملکی و غیر ملکی ادارے بھی بدامنی کی لہر سے متاثرہ افراد کی مدد کرنے میں مصروف ہیں لیکن کب تک؟ آخر کب تک غیر سرکاری ادارے (چاہے ملکی ہو یا غیر ملکی) ان متاثرین کی امداد کرتے رہیں گے۔ ایک دن ایسا بھی آئیگا کہ یہی ادارے بدامنی سے متاثرہ تمام افراد سے ہاتھ کھینچ لیں گے پھر انکی مدد کون کرے گا؟سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ کس طرح ہم اپنے ہی لوگوں کے لئے ایسا مستقل حل تلاش کرسکتے ہیں کہ وہ نہ ہماری محتاج رہے نہ کسی کی مدد کی؟ ہمیں سوچنا ہوگا، بحیثیت قوم بھی اور بحیثیت انسان بھی ۔ خصوصاً حکومت وقت کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان تمام افراد کے لئے کوئی ایسا حل تجویز یا تلاش کریں جس کے ذریعے متاثرین کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انکی مکمل بحالی تک مدد جاری رکھا جاسکے۔راقم الحروف کی طرف سے ایک تجویزہے جس پرکسی حد تک کام بھی شروع ہوچکا ہے وہ یہ کہ بدامنی سے متاثرہ تمام افراد کے لئے متاثرین بدامنی فنڈ کے نام پر ایک خصوصی فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ بے شک ملکی و غیرملکی اداروں سے اس فنڈ کے ذریعے امداد کی اپیل بھی کی جائے، لیکن حقدار کو اسکا حق بھی پہنچنا چاہئے۔ یہی ایک حل ہوسکتاہے جس کو ہم مستقل حل بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرین بدامنی کے لئے اسی فنڈ میں سے تمام ضروریات پورا کرنے اور انکی بحالی تک انکی مدد جاری رکھنے کے عمل کو بھی جاری رکھا جائے ۔ ان تمام معاملات کے لئے نہ صرف حکومتی سطح پر ایک باقاعدہ فریم ورک کی ضرورت ہے بلکہ صاحب ثروت لوگ بھی متاثرین بدامنی فنڈ میں اپنی ثروت کے مطابق اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لئے حصہ ڈال سکتے ہیں تاکہ کل کووہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں اور نہ کسی ایسے کام پر مجبور کئے جائیں جس سے ہماری ملکی سالمیت اور بقاء کو مزید خطرہ لاحق ہو ۔

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.