2/01/2015

سکولوں کی سیکیورٹی۔۔ اقدامات و اثرات

آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد سے وفاقی و صوبائی حکومتیں بڑی حساس ہونا شروع ہوگئے ہیں اور کئی ایسی اقدامات اٹھائے گئے ہیں جس سے نہ صرف نفسیاتی طور پر تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء و طالبات متاثر ہوئے ہیں بلکہ سکولوں میں موجود غیرتربیت یافتہ چوکیدار حضرات کے لئے بھی درد سر بنتے جارہے ہیں۔ 16دسمبر 2014ء کے سانحہ کے بعد تعلیمی ادارے 12جنوری 2015ء کو کھل گئے اور کچھ تعلیمی ادارے کھل بھی گئے لیکن سرکاری و غیرسرکاری تعلیمی اداروں کی طرف سے سیکیورٹی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو ناکافی قرار دیا جارہا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں نے کچھ حد تک تو اپنا کاروبار اور سکول کا نام بچانے کے لئے چوکیداروں کے ساتھ ساتھ سکولوں کے سامنے بلاکس رکھ کر اپنا فرض کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حالت زار ہے تو سرکاری تعلیمی اداروں کی ، جہاں نہ صرف سیکیورٹی کے نام پر ایک کھیل کھیلا جارہا ہے بلکہ اب تک کئی تعلیمی ادارے صوبائی حکومت (خیبرپختونخوا) کی راہ تھک رہے ہیں کہ کب حکومتی ایوانوں سے ان سکولوں کے لئے فنڈز کا اجراء ہوگا اور پھر ملک کے مستقبل کی سیکیورٹی کا مناسب انتظام کیا جائیگا۔
بات صرف سیکیورٹی کی نہیں ہمارے ذہنوں کی بھی ہے جو کسی نہ کسی طرح منفی سوچ کو ہوا دیکر ہمیں مجبور کررہا ہے کہ حکومتی ایوانوں یا اداروں کے لئے درد سر بن جائے۔ دوسری طرف ہمارے مضافاتی علاقوں میں کئی ایسی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں جو بچوں کے ذہنوں کو مفلوج کرنے کی سازش کے طور پر ابھررہی ہیں ۔ اور بچے پوری سیکیورٹی کے ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کررہے، حالانکہ ایسی کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں لیکن چونکہ ہمارے معزز قائدین کی جانب سے یہ حکمنامہ جاری ہوا ہے کہ ہر سکول(سرکاری و غیرسرکاری) اپنی سیکیورٹی کا خود ذمہ دار ہوگا۔ ایسے میں خیبرپختونخوا کے سکولوں میں گیٹ کے اوپر بلاکس رکھ کر ایک چوکی سی بنائی گئی ہے جو سکول کی عمارت کو سیکیورٹی فورسز کی عمارت ظاہر کررہی ہے۔ 
صوبائی حکومت کی جانب سے اقدامات کو اساتذہ کئی زاویوں سے غیرمطمئن قرار دے رہے ہیں ۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ شہروں میں اساتذہ کچھ نہ کچھ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن مضافاتی علاقوں میں اساتذہ میں اتنی قوت برداشت نہیں ہوتی کہ وہ طالبعلم کی ہر بات کو برداشت کرسکے۔ ایسے میں اساتذہ کو پستول یا اسلحہ رکھنے کی اجازت دینا نہ صرف طلباء کے ذہنی صلاحیتوں پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں بلکہ کئی ایک اساتذہ اسی پستول یا اسلحہ کا غیرارادی طور پر غلط استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی طالبعلم بندوقوں کے سایہ میں سکول آئے اور جائے تو اس کی ذہنی ہم آہنگی یقیناً کتاب سے زیادہ بندوق کے ساتھ ہوگی کیونکہ انسانی ذہن زیادہ تر ان چیزوں کی طرف آسانی سے مائل ہوجاتی ہے جس طرف نہیں ہونا چاہئیے۔ اور پھر بچے تو من کے سچے ہونے کے ساتھ ساتھ ٖغیر سیاسی بھی ہوتے ہیں۔

ایسے میں اساتذہ کرام صاحبان کو بھی کنفیوز کیا گیا ہے کیونکہ ایک بندہ ایک وقت میں ایک ڈیوٹی کرسکتا ہے یا تو وہ چوکیدار بن کر طلباء کی حفاظت کرے گا اور یا وہ اپنے بچوں کو کچھ سکھائے گا۔ خیر جو بھی ہو اب اپنی اور بچوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھنا ہے تو یہ تو کرنا ہوگا۔ لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی، اصل بات یہ ہے کہ جس طرح یہ افواہیں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے کہ سکولوں کو سیکیورٹی کے خطرات لاحق ہیں تو بچوں کے ذہنوں پر ایک خوف سا طاری ہوچکا ہے اور صبح جانے سے پہلے ہر بچہ اپنے والدین سے یہی سوال کررہا ہے کہ کیا ہمارے سکول پر بھی دہشتگردوں کا حملہ ہوگا؟ کیا ہمارا سکول بھی آرمی پبلک سکول کی طرح حملہ کا نشانہ بنے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر بچے کے ذہن کو مفلوج کررہا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تعلیم سے زیادہ اپنی زندگی کی فکر میں مگن رہتا ہے ۔ 
تو پھر حل کیا ہے ؟ حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی ہے کہ سکول محفوظ نہیں ، مساجدمحفوظ نہیں، بازار تباہ کئے جارہے ہیں، عوامی اجتماعات کو نشانہ بنایا جارہا ہے، خوف تو ہوگا بچوں میں بھی اور اساتذہ سمیت والدین میں بھی۔
کہتے ہیں کہ اگر برائی کو ختم کرنا ہو تو اسکی ترویج و شہرت کو بند کرو۔ جو چیز جتنا مشہور ہوگا اتنا ہی اسکے اثرات میں اضافہ ہوگا۔ اگر مثبت کو منفی پر غالب کرنا ہے تو مثبت کی ترویج و تبلیغ کرو۔ لوگوں کے ذہنوں میں مثبت مثبت کی مہریں لگاو، کیونکہ انسانی اذہان مثبت کو کم اور منفی کو زیادہ توجہ دینے کے لئے بنے ہوئے ہیں ایسے میں منفی خیالات کو ہوا دینے سے مثبت کا وجود ختم ہوجائیگا اور ہمارے ذہنوں پر صرف منفی سوچ و خیالات حکمرانی کریں گے۔
سب سے پہلے تو اس بات کو اتنی ہوانہیں دی جانی چاہئیے تھی کیونکہ بچے معصوم ہوتے ہیں اگر آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا گیا تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم سکولوں اور سیکیورٹی فورسز کے عمارتوں کے درمیان فرق کو ختم کریں۔ ایسے میں سیکیورٹی اقدامات کو اٹھانا مجبوری ہی سہی لیکن معصوم ذہنوں کی نفسیاتی نشوونما کو ہر حال میں مد نظر رکھنا چاہئے کیونکہ یہی ہمارا مستقبل ہے۔

The Column was published in Daily Akhbar e Khyber on January 29th, 2015

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.