2/01/2015

شہید پاکستان کا قوم کے نام خط

میرے پیارے پاکستانیوں! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اور مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کو بھول چکے ہوں گے اسی لئے سوچا کہ کیوں نہ آپ کو ان لوگوں کی یاد دلادوں جنہوں نے پاکستان کی سلامتی اور دہشتگردی کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ انکو کچھ ملا یا نہیں لیکن وہ اس دنیا سے سرخرو رخصت ہوئے ۔
میرے پیارے پاکستانیوں!
                                       آپ کو شایدیاد ہوگا آج سے ایک سال اور کچھ دن پہلے ضلع ہنگو کے ابراہیم زئی نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک پندرہ سالہ طالبعلم جس کا نام اعتزاز حسن تھا ،نے ایک خودکش حملہ آور کو روکتے ہوئے اپنی جان قربان کی لیکن سکول کے اندر موجود سینکڑوں بچوں کی جانیں بچائی ۔ ہاں میں وہی ہوں آج کل آپکی نظروں سے اوجھل ہوں کیونکہ اس دنیا کو صرف وہی لوگ نظر آتے ہیں جو بڑے بڑے گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں اور کسی بڑے باپ کے بیٹے ہوں۔


                                   ہاں یاد آیا، کچھ بچوں سے میری جنت میں ملاقات ہوئی وہ بڑے خوش تھے اور آپس میں ایک دوسرے کو دنیا میں ساتھ دیکھے اور سنے واقعات کی داستانیں سنارہے تھے ۔ میں نے ایک خوبصورت اور پھول جیسے لڑکے سے پوچھا کہ آپ کون ہیں یہاں نئے آئے ہیں کیا؟ اس نے کہا ہاں میرا نام مبین آفریدی ہے اور مجھ سمیت یہ تمام لڑکے جو خوشی خوشی ایک دوسرے سے باتیں کررہے ہیں ، میرے ساتھ آرمی پبلک سکول میں شہید ہوئے ہیں۔ پھر اس نے مجھے آرمی پبلک سکول میں پیش آنیوالی داستان سنا دی۔ مجھے خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی، خوشی اس بات کی کہ چلو میرے ہم عمردوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، اب ہم یہاں پر خوب مستیاں کریں گے لیکن دکھ اس بات کا ہوا کہ کاش میں ٓرمی پبلک سکول میں ہوتا تو کم سے کم ایک دہشتگرد کو تو اسی طرح لپٹ کر روک سکتا تھا جس طرح اپنے سکول میں روکا تھا۔ لیکن خیر میں سب والدین کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سب یہاں پر بہت خوش ہیں اور آپ ہمارے لئے آنسو نہ بہائیں کیونکہ پھر ہمیں یہاں دکھ ہوتا ہے۔
میرے پاکستانی بھائیوں، بہنوں اور بزرگوں
                          شاید میں یاد آیا ہوں گا، ان سب کو جنہوں نے اس سکول میں موجود بچوں کو دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھا، سنا یا محسوس کیا ہو۔ خیر کوئی بات نہیں یہ قربانی تو کسی نہ کسی کو دینی پڑتی ہے۔ میں نے دی،آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں نے دی اور ہاں یاد آیا اساتذہ خصوصاً پرنسپل صاحبہ نے جو قربانی دی میں ان سے ملنے خصوصی طور پر جنت میں انکے گھر گیا اور مبارکباد دی۔ وہ بھی بڑی پر سکون اور مطمئن بیٹھی ہوئی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنا فرض پورا کیا ہے مجھے دلی اطمینان اور سکون ہے۔
اب میں وہ سب کچھ آپ کو بتاتا ہوں جس کے لئے میں یہ خط لکھ رہا ہوں ۔ میں نے اپنی برسی پر دیکھا کہ مجھے سب لوگ بھول گئے کسی نے بھی میرے اعزاز میں کوئی بڑا پروگرام نہیں کیا۔ میرے گھر والوں اور اے وی ٹی چینلز نے بہت کچھ کیا، سارا دن صرف میرے بارے میں ہی باتیں کرتے رہے۔ ایک اردو نیوز چینل نے ایک رپورٹ چلائی ، دوسرے اردو چینل کے ایک پروگرام اینکر نے ہنگو سے میرے لئے اپنا پروگرام کیا۔ لیکن میرا گلہ ان سے نہیں جنہوں نے مجھے یاد نہیں کیا، میرا گلہ ان تمام پاکستانیوں سے ہے جو ابھی بھی مجھے جانتے تک نہیں۔ مجھے مشہور ہونے یا اعزاز دینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ میں نے وہی کیا جو میرا فرض تھا، میں نے جو کیا صرف اپنے لئے کیا کسی دوسرے کے لئے نہیں کیا۔ میں نے اپنی جان صرف اس لئے قربان کی تاکہ سکول میں موجود سینکڑوں بچوں کو بچاسکوں، لیکن ٓپ لوگ کم ازکم اپنے بچوں کو وہ کچھ سکھائیں جو مجھے میرے والدین نے سکھایا تھا، ہاں اپنے وطن پر قربان ہونا۔
میرے پیارے پاکستانیوں !
                                مجھے آپ سے ایک گلہ ہے لیکن سوچ رہا ہوں کروں یا نہ کروں ۔ خیر چھوڑئے گلوں شکووں سے کچھ نہیں بنتا بس ایک نصیحت ہی کرلیتا ہوں، لیکن میں کیا نصیحت کروں گا کیونکہ میری عمر ہی کیا ہے، پر اس چھوٹے سے منہ کے ساتھ بہت بڑی بات کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ خدارا اپنے ملک اور قوم کو بچائیں ۔ ذرا سوچئیے دنیا کہاں ہے اور ہم کہاں؟؟؟ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمارا مملکت خداداد پاکستان گذشتہ دہائی سے ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوچکا ہے جس کے لئے کوئی کچھ نہیں کررہا۔ ابھی سنا ہے کہ کچھ فوجی عدالتیں بن رہی ہیں جو مجرموں کو جلد سے جلد سزائیں دلوائیں گی۔خدا کرے کہ اسی راستے اس ملک سے یہ ناسور ختم ہوجائے لیکن پھر بھی میری گزارش ہر فرد اور خصوصاً نوجوانوں سے ہے کہ خدارا اس ملک کو بچائیں۔ اگر مجھے کوئی بھول گیا ہے تو کوئی بات نہیں، اگر آپ کی قربانی کو کوئی یاد نہیں رکھے تو کوئی شکایت نہ کرو، نہ افسوس کرو بس اپنا فرض سمجھ کر اس ملک کو سنوارنے کی کوشش کریں۔ سب کچھ سیاستدانوں پر نہ چھوڑیں کیونکہ گذشتہ 67 برسوں سے ہم یہی کچھ کرتے آرہے ہیں اس سے کچھ آفاقہ نہیں ہورہا۔ 
پیارے بھائیوں اور بہنوں!
                                              اگر میں ہوتا تو آپ کو ضرور اکٹھا کرنے کی کوشش کرتا لیکن بدقسمتی سے میرے ساتھ زندگی نے وفا نہیں کی اور بہت جلد میرے فرض کی ادائیگی کا وقت آگیا۔ اب آپ کی باری ہے اٹھیں، سوچیں اور وہ کچھ کرکے دکھائیں کہ کل کو ساری دنیا آپ پر فخر کریں۔

آپ کا بھائی

اعتزاز حسن بنگش


The Column was published in Akhbar e Khyber on January 15th 2015

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.