پاکستانی میڈیاجب سے نجی کمپنیوں اور اداروں میں تبدیل ہوگئی ہے تب سے ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے نہیں کتراتے ۔بولنے پر کسی کو پابندی نہیں لیکن ہر پیشے کے تقدس کا خیال رکھنا اس میدان میں کام کرنیوالوں کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور یہی ذمہ داری صحافتی اداروں اور اس میں کام کرنے والوں سے تقاضا کرتی ہے کہ جو بھی خبر دینی ہو اس کی تصدیق ہونی چاہئیے۔ تصدیق ہوجائے تو خبر کو خبر بنا کر لوگوں تک پہنچایا جائے لیکن اس میں بھی اپنے قارئین ،ناظرین اور سامعین کی دلچسپی کو مدنظر رکھنا چاہئیے۔
گذشتہ کئی دنوں سے پاکستانی میڈیا ایسا دکھائی دے رہا ہے جیسا کہ صحافی حضرات اور صحافتی ادارے (خصوصاًالیکٹرانک میڈیا) سب خبریں بھول چکے ہیں اور پاکستان میں کوئی دوسرا مسئلہ نہیں سوائے ایگزیکٹ کمپنی کے مبینہ جعلی ڈگریوں کے سکینڈل کا ۔ خبرنامہ، ٹکرز، بریکنگ نیوز، تازہ خبر غرض جو بھی خبر کی قسم ہے صرف اور صرف انہی خبروں پر مشتمل ہے جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ پاکستان میں کوئی دوسرا مسئلہ نہیں سوائے اس جعلی ڈگری سکینڈل کے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں مکمل امن قائم ہوچکا ہے، شمالی وزیرستان اور خیبرایجنسی میں جاری دہشتگردوں کے خلاف جنگ بھی شاید ہم جیت چکے ہیں اور انہی علاقوں سے بے گھر ہوئے افراد بھی شاید بڑی خوشی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس ہوچکے ہیں اور خوش وخرم زندگی گزاررہے ہیں اسی لئے تو پاکستانی میڈیا میں ان کا کوئی ذکر نہیں ۔ پاکستانی شاید سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان ، جس کو کچھ لوگ مسائلستان کے نام سے بھی پکارتے ہیں،میں دوسرا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، شرح خواندگی بھی سو فیصد ہوگئی ہے شاید ۔
کراچی والے پانی کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہیں، پختونخوا کے عوام لوڈشیڈنگ، گیس کی قلت اور سکولوں کی کمی کے ساتھ ساتھ وہاں پر دینے والے نامکمل سہولیات سے تنگ ہیں۔ بلوچستان میں امن و امان کے مسائل کے خاتمے کے لئے آئے روز سرچ آپریشن کرنا پڑتا ہے ، پنجاب سے خبریں شاید آنہیں رہی کیونکہ وہاں کے حکمران وفاق میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پختون شکایت کررہے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے لیکن شایدپاکستانی میڈیا کو پتہ نہیں یا معلوم نہیں کرنا چاہتے کہ اصل معاملہ کیا ہے اور پختون بحیثیت قوم کونسی محرومیوں کا احساس اپنے دلوں میں بسائے زندگی گزاررہے ہیں۔
اب اس ماحول میں صرف ایک موضوع کو لے کر اپنی دل کی بڑاس نکالنے والے صحافی کل کس منہ سے کہیں گے کہ بھئی یہاں پر میرٹ کا استحصال ہورہا ہے، یہاں پر ناانصافی ہورہی ہے،یہاں پر انسان کو بنیادی سہولیات اور ضروریات زندگی میسر نہیں ۔ کیسے یہ لوگ کہیں گے کہ ہم انصاف چاہتے ہیں، ہم انصاف کی بات کرتے ہیں، ہم میرٹ کا بول بالا چاہتے ہیں، ہم پاکستان کو پر امن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے ۔ ہم پاکستانی قوم کی خوشحالی چاہتے ہیں ۔ بھئی آپ خود صرف ایک چیز کے پیچھے پڑ کر سب کچھ بھول چکے ہیں اور کچھ دنوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ بس یہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔
کرپشن، دھوکہ اور ملک کی بدنامی اگر ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات کرنا اور تحقیقات کے بعد سزا دینا حکومت اور عدلیہ کا کام ہے ہم صحافیوں کا نہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ قصوروار کون ہیں اور بے قصور کون ؟ پیشہ وارانہ تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر اگر ہم چیزوں کو جانچنے کی کوشش نہیں کریں گے تو اسی طرح پاکستان اور پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکا رہے گا۔ کہیں جعلی ڈگری سکینڈل تو کہیں جمہوریت پر وار سے، کہیں میمو گیٹ سکینڈل تو کہیں سیاسی رہنماؤں پر حملوں سے۔ کہیں ہمارے بچوں کو مارا جائیگا تو کہیں ہمارے صحافیوں کو۔ آج اگر اس مبینہ ڈگری سکینڈل کے پیچھے سارے میڈیا والے یک زبان ہوکر آواز اٹھارہے ہیں تو کیوں نہ ان لوگوں کے خلاف بھی آواز اٹھائے جو اس ملک کو تاریکی کے دور میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیوں نہ ہم ان لوگوں کے خلاف بولے جو پاکستانیوں کو انکے بنیادی حقوق دینے کے نام پر سیاست کررہے ہیں۔ کیوں نہ ہم اس پس پردہ قوت کے خلاف بولے جو اس ملک کو امن کا گہوارہ بنانے سے روک رہا ہے ۔ کیوں نہ ہم اس قوت کے خلاف بولے جس نے پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی سازش بنارکھی ہے۔ کیوں نہ ہم ان لوگوں کے خلاف بولے جو پاکستان کے ہر ادارے پر قابض ہوکر غریبوں کا مال لوٹ رہے ہیں۔ میرے پیارے صحافی بھائیوں! کیوں نہ ہم اس ملک میں تعلیم عام کرنے کے لئے یک زباں ہو کر آواز اٹھائے پھر ہر کوئی بولے گا کہ "بول میڈیا بول" ۔
کراچی والے پانی کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہیں، پختونخوا کے عوام لوڈشیڈنگ، گیس کی قلت اور سکولوں کی کمی کے ساتھ ساتھ وہاں پر دینے والے نامکمل سہولیات سے تنگ ہیں۔ بلوچستان میں امن و امان کے مسائل کے خاتمے کے لئے آئے روز سرچ آپریشن کرنا پڑتا ہے ، پنجاب سے خبریں شاید آنہیں رہی کیونکہ وہاں کے حکمران وفاق میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پختون شکایت کررہے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے لیکن شایدپاکستانی میڈیا کو پتہ نہیں یا معلوم نہیں کرنا چاہتے کہ اصل معاملہ کیا ہے اور پختون بحیثیت قوم کونسی محرومیوں کا احساس اپنے دلوں میں بسائے زندگی گزاررہے ہیں۔
اب اس ماحول میں صرف ایک موضوع کو لے کر اپنی دل کی بڑاس نکالنے والے صحافی کل کس منہ سے کہیں گے کہ بھئی یہاں پر میرٹ کا استحصال ہورہا ہے، یہاں پر ناانصافی ہورہی ہے،یہاں پر انسان کو بنیادی سہولیات اور ضروریات زندگی میسر نہیں ۔ کیسے یہ لوگ کہیں گے کہ ہم انصاف چاہتے ہیں، ہم انصاف کی بات کرتے ہیں، ہم میرٹ کا بول بالا چاہتے ہیں، ہم پاکستان کو پر امن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے ۔ ہم پاکستانی قوم کی خوشحالی چاہتے ہیں ۔ بھئی آپ خود صرف ایک چیز کے پیچھے پڑ کر سب کچھ بھول چکے ہیں اور کچھ دنوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ بس یہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔
کرپشن، دھوکہ اور ملک کی بدنامی اگر ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات کرنا اور تحقیقات کے بعد سزا دینا حکومت اور عدلیہ کا کام ہے ہم صحافیوں کا نہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ قصوروار کون ہیں اور بے قصور کون ؟ پیشہ وارانہ تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر اگر ہم چیزوں کو جانچنے کی کوشش نہیں کریں گے تو اسی طرح پاکستان اور پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکا رہے گا۔ کہیں جعلی ڈگری سکینڈل تو کہیں جمہوریت پر وار سے، کہیں میمو گیٹ سکینڈل تو کہیں سیاسی رہنماؤں پر حملوں سے۔ کہیں ہمارے بچوں کو مارا جائیگا تو کہیں ہمارے صحافیوں کو۔ آج اگر اس مبینہ ڈگری سکینڈل کے پیچھے سارے میڈیا والے یک زبان ہوکر آواز اٹھارہے ہیں تو کیوں نہ ان لوگوں کے خلاف بھی آواز اٹھائے جو اس ملک کو تاریکی کے دور میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیوں نہ ہم ان لوگوں کے خلاف بولے جو پاکستانیوں کو انکے بنیادی حقوق دینے کے نام پر سیاست کررہے ہیں۔ کیوں نہ ہم اس پس پردہ قوت کے خلاف بولے جو اس ملک کو امن کا گہوارہ بنانے سے روک رہا ہے ۔ کیوں نہ ہم اس قوت کے خلاف بولے جس نے پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی سازش بنارکھی ہے۔ کیوں نہ ہم ان لوگوں کے خلاف بولے جو پاکستان کے ہر ادارے پر قابض ہوکر غریبوں کا مال لوٹ رہے ہیں۔ میرے پیارے صحافی بھائیوں! کیوں نہ ہم اس ملک میں تعلیم عام کرنے کے لئے یک زباں ہو کر آواز اٹھائے پھر ہر کوئی بولے گا کہ "بول میڈیا بول" ۔
یہ کالم روزنامہ اخبار خیبر میں 26مئی 2015 کو شائع ہوا ہے
0 comments:
Post a Comment