1/07/2015

نیا سال 2015 ۔۔۔۔۔۔ ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟؟؟

سال 2014ء اسی طرح ہی گزر گیا جس طرح پچھلے تمام سال گزرگئے تھے لیکن مجھے اب یقین ہے کہ ہم نے پچھلے تمام سالوں سے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا۔ خصوصاً 2014ء سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ایک طرف ہمیں اس سال نے بہت غم دکھائے تو بحیثیت قوم کچھ امید کی کرنیں بھی نظر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ملکی صورتحال پر جتنا بھی کوئی غور کرے گا اتنا ہی وہ حیران و پریشان ہوتا رہے گا اس لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی سوچ کو اپنے آپ تک ہی محدود کیا جائے ۔ ہر سال کے آغاز پرلوگ ایک دوسرے کو نیا سال مبارک جیسے پیغامات بہت بھیجتے ہیں لیکن مجھے ایسے لوگ کم ہی نظر آئے جنہوں نے کہا ہو کہ یار پچھلے سال ہم نے یہ غلطیاں کی اگلے سال نہیں کریں گے یا کم ازکم اس بارے میں سوچیں گے ضرور۔
 ملکی صورتحا ل کو اگر بغور دیکھا جائے تو پچھلا سال ہمارے لئے اتنا اچھا نہ رہااور خصوصاً پختونخوا کے لئے یہ سال پریشانیوں اور غموں سے بھرا ہوا سال ثابت ہوا لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم نے کچھ پایا نہیں ۔ ہم نے بہت کچھ پایا اور بہت کچھ کھویا ۔ اس بارے میں بہت کچھ آپ نے پڑھا اور سنا ہوگا کہ ہم نے دہشتگردی کی لہر میں تیزی دیکھی، بہت سے لوگوں نے اپنوں کو کھویا، کسی نے اسی دہشتگردی کی لہر کی وجہ سے گھر بار چھوڑا تو کسی نے اپنی جانیں اسی ملک کی سلامتی اور بقا کیلئے قربان کیں۔ 
2014ء اب یاد ماضی کی صورت میں ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے لیکن ہماری ذمہ داری اب یہ ہے کہ ہم انہی یادوں سے کچھ سبق سیکھ کر زندگی کے آنیوالے دنوں کو ایسی شکل میں گزارنے کی کوشش کریں کہ سال 2016ء ہمارے لئے ویسا نہ بنے جس شکل میں ہم نے سال 2015ء کا استقبال کیا۔ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں اور ہم بھی بدقسمتی سے اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کے صف میں کھڑا دیکھ رہے ہیں اسی لئے ہم پر کچھ ایسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جنکو پورا کرنا نہ صرف ہمارا فرض ہے بلکہ ہماری مجبوریا ں بھی ۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار وہاں کے رہنے والوں پر ہوتا ہے اور کسی خطے میں بسنے والے لوگ اپنا ملک جس طرح بنانا چاہے اسی طرح بناسکتے ہیں ۔ لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئیے کہ بہت سے کام ہمارے بس میں نہیں ہوتے ، تو سب سے پہلے وہ کام کریں جو ہماری استطاعت میں ہو۔ سب سے پہلے انفرادی طور پر ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے ابھی تک (یا کم ازکم پچھلے سال) ایسی کونسی انفرادی غلطیاں کیں جن کی وجہ سے نقصان اس خطے اور اس قوم کو اٹھانا پڑا۔ اگر کسی کی یادداشت میری طرح کمزور ہو تو اپنی روزمرہ کی زندگی سے کچھ مواد مل سکتے ہیں جن سے وہی غلطیاں (جو ہم نے پچھلے سال کیں ہیں) پہچانے جاسکتے ہیں۔
ہم باتیں بہت کرتے ہیں، دعوے بھی بہت کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں لیکن جب تک ان باتوں کو عمل سے ثابت نہ کریں تو باتیں صرف باتیں ہی رہتی ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم کچھ ایسا کریں جو صرف الفاظ کی حد تک نہ ہو بلکہ یہ سال ہمارے لئے کچھ ایسا لے کر آئے اور ہم فخر کے ساتھ کہہ سکے کہ ملکی صورتحال یا کم ازکم اپنے اردگرد کو سنوارنے میں ہمارا ہاتھ بھی ہے۔ عنوان کو مدنظر رکھتے ہوئے میں بڑی بڑی باتیں آپ کے سامنے نہیں رکھوں گا بس کچھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی اکتفا کروں گا کیونکہ بڑی باتیں دانشوروں کے قلم سے ہی اچھی لگتی ہیں۔
ہم روزانہ کہیں نہ کہیں جاتے ہیں لیکن اس سال اگر ہم کہیں بھی جاتے ہیں تو ایسی سوچ کے ساتھ جانا ہوگا کہ ہم ایک باشعور اور ذمہ دار شہری ثابت ہوں۔ فرض کریں ہم کسی بھی گلی میں جارہے ہیں اور وہاں پر کوئی کوڑا دان پڑا ہو لیکن اسکے اردگرد بھی بہت گندگی پڑی ہوئی ہو( جو اکثر پڑی نظر آتی ہے) اور ہم اسی طرح ہی کسی کو دیکھ لے کہ کوڑا دان میں پھینکنے کی بجائے وہ گندگی کوڑا دان کے ساتھ رکھ کر جاتا ہے تو ہم صرف اتنا تو کرسکتے ہیں کہ اسے سمجھا سکیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔
ہم کسی گاڑی میں سفر کررہے ہیں اور سامنے سگنل سرخ ہوجائے لیکن لوگ پھر بھی اسی سرخ اشارے پر گاڑیوں کو بھگارہے ہوں تو ہم اسے سمجھا تو سکتے ہیں کہ بھائی تم غلط کررہے ہو۔ اگر کوئی اپنی گاڑی سے کچرہ باہر سڑک پر پھینک رہا ہو تو ہم اگر اسے کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اسی کچرے کو اٹھاکر کسی کوڑادان میں تو پھینک سکتے ہیں۔ اگر ہم گاڑیوں کے درمیان سے سڑک پار کرسکتے ہیں تو کیوں نہ جو راستہ پیدل چلنے والوں کے لئے بنا ہے اسی کو خود بھی استعمال کریں اور دوسروں کو بھی اسکی تلقین کریں۔ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے کوڑا صرف اپنے گھر سے باہر کرکے پھینکنا ہماری عادت بن گئی ہے تو کیوں نہ سال 2015ء میں ہم اس عادت کو چھوڑدیں۔ 
یہ کچھ باتیں جس پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا لیکن خود سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرح اس ملک کے لئے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں ۔ کس طرح ہم دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پر سکون اور پر مسرت زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہم سیاستدانوں اور اپنی حکومت کو بہت برابلا کہہ دیتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم کیوں کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے؟ جب تک ہم خود صحیح راستوں پر چلنے کی کوشش نہیں کریں گے تب تک ہمیں کسی سے بھی گلہ کرنے یا انکو نامناسب الفاظ سے یاد کرنے کا کوئی حق نہیں۔

آئیے اس نئے سال کو نیا ہی بنائیں اور پرانی روایتوں کو توڑ کر اس ملک کی سلامتی، بقا، صفائی اور پاکیزگی کے لئے اپنے آپ سے شروع کریں اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر اس نئے سال میں نیا پاکستان بنائیں۔

Column published in Daily Akhbar-e-Khyber on 07th January 2015

http://www.akhbarekhyber.com/index.php?Issue=PEW&page=11&date=2015-01-07

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.