5/10/2015

بجلی ۔ ۔ ۔ دو دن کی

اسلام آباد کے لوگ بڑے خوش قسمت ہیں جن کو اس بات کا ادراک پہلے سے ہی ہوتا ہے کہ کب اندھیرا ہونا ہے اور کب روشنی ۔ دن ہو یا رات ، سردی ہو یا گرمی، دوکان ہو کہ گھر ،سب کو پتہ ہوتا ہے کہ دن کب آتا ہے اور رات کب ۔ مطلب ہر کسی کو اپنے روزمرہ کے کام کاج کے علاوہ زندگی کے دیگر امور کو قالب میں رکھ کر زندگی باآسانی میسر ہے ۔ لیکن پختونخوا کے عوام کے لئے یہ سہولت میسر نہیں کیونکہ وہ یا تو پاکستانی نہیں اور یا ان کو اس قسم کی زندگی گزارنے کا حق نہیں۔
گذشتہ روز گاوں جانے کا اتفاق ہوا اورگرمیوں میں سب کچھ خود دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ شام کو گھر ( سخاکوٹ ضلع ملاکنڈ) پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ بجلی صاحبہ گذشتہ دو روز سے خفا ہے اور ہمارے گھر آنے کا نام نہیں لے رہی۔ میں نے سوچا چلو منانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے گھر والوں (واپڈا) کو فون کرنے کی جسارت کی لیکن کئی ناکام کوششوں کے بعد معلوم ہوا کہ صاحبان اکثر ٹیلیفون ریسیور فون کی بجائے میز پر رکھ کر اپنے خوش گپیوں میں خلل نہیں ڈالنا چاہتے اور نہ کسی کو یہ جرات ہوتی ہے کہ ان کی شاہانہ زندگی میں مداخلت کرے ۔ ہمارے علاقہ میں بجلی جہاں سے مہیا کی جاتی ہے ان کو ہم میاں خان تھری کے نام سے جانتے ہیں اور ان کا ٹیلیفون نمبر ہے 0932332046 ۔ لیکن اس نمبر پر عوام کا خیال ہے کہ کبھی بھی ان کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے ۔ اسکے بعد میں نے کوشش کی کہ بجلی کے بل پر دئیے گئے ایک دوسرے نمبر پر کوشش کروں جو پشاور دفتر کا تھا لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے وہاں پر بھی رابطہ نہ ہوسکا۔ آخر سوچ لیا کہ فائدہ کوئی نہیں کیوں اپنی بچی کچی توانائی کو فضول میں صرف کروں ۔
اسی سوچ میں یاد آیا کہ پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے وزیرمملکت برائے پانی و بجلی محترم جناب عابدشیرعلی صاحب نے الزام لگایا تھا کہ پختونخوا میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پر 90 فیصد لوگ بل نہیں دے رہے ۔ دوسرا الزام یہ بھی لگایا کہ وفاقی حکومت نے چکدرہ گرڈ سٹیشن کے لئے 55کروڑ روپے ایک سال پہلے جاری کئے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے ابھی تک اس کے لئے زمین فراہم نہیں کی ۔ صوبائی حکومت الزام لگارہی ہے کہ وفاق صوبے کو انکے حقوق نہیں دے رہا، خصوصاً بجلی کی مد میں ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے ۔ اب غریب بندہ کرے تو کیا کرے ؟ دور دراز گاوں میں رہنے والا ایک غریب مزدور کسان کا بیٹا پورا دن محنت مزدوری کرکے جب گھر آتا ہے تو وہاں بھی سکون نہیں ملتا۔ گرمی سے برا حال ہو کر بھی کچھ کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔ 
دو روز گزارنے کے بعد اسلام آباد کا رخ کیا تو احساس ہوا کہ گاوں میں رہنا اتنا آسان کام نہیں ۔ گاوں تو دور پشاور جیسے شہر میں بھی بجلی کے جانے اور آنے کے اوقات کی وجہ سے وہاں زندگی بسر کرنے والے کنفیوز ہے کہ کب آئے گی اور کب جائے گی ۔ پورا دن اسی میں گزرجاتا ہے کہ بجلی آئی اور بجلی چلی گئی ۔ لیکن نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ بتانے والا کہ ہمارا قصور کیا ہے ؟ ہم کتنی بجلی پیدا کررہے ہیں ؟ ہماری طلب کیا ہے اور رسد کیا؟ کیا ہمیں اٹھارویں ترمیم کے بعد اپنا حق مل رہا ہے ؟ اگر نہیں مل رہا تو صوبائی حکومت کیوں چپ بیٹھا ہے؟ کیوں اپنا حق وفاق سے نہیں مانگ رہا ؟ اگر انہوں نے چکدرہ گرڈسٹیشن کے لئے 55کروڑ روپے دئیے ہیں تو صوبائی حکومت کیوں انہیں زمین فراہم نہیں کررہی؟ کہیں یہ وہی تبدیلی تو نہیں جس کے لئے پختونخوا کے عوام ہر انتخابات میں چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن پھر اپنے آپ کو کوستے رہتے ہیں ۔
ملاکنڈڈویژن میں پاکستان کا پہلا بجلی گھر(جبن پاور سٹیشن) موجود ہے ۔ اس کے بعد درگئی اور اب ملاکنڈ تھری کے نام سے 81میگاواٹ کی بجلی پیدا کرنیوالا پاورسٹیشن بنایا گیا ہے (جو کہ ابھی تک واپڈا کے ویب سائٹ پر موجود نہیں) ۔ 100میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والے علاقے کے رہنے والے نہ تو دن میں بجلی سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور نہ رات کو ۔ ایک دن اپنے ایک کالج کے دوست کا موبائل پیغام آیا کہ بھائی یہ کیا ہورہا ہے ہمارے ساتھ؟ مردان میڈیکل کمپلیکس میں ہوں بجلی صاحبہ صبح چلی گئی اور شام 7 بجے واپس ہمیں اس کی دیدار نصیب ہوئی۔ حالانکہ مردان کے بارے مین ہم سنتے آرہے ہیں کہ گذشتہ دور حکومت میں اس ضلع کو بڑی توجہ ملی تھی اور بہت ترقیاتی کام بھی ہوئے ہیں وہاں پر بھی یہ حال ہے جو میں نے گذشتہ دو روز میں اپنے علاقے (سخاکوٹ ملاکنڈ) میں دیکھا۔ دو دن گزارے لیکن میں نے بجلی کی شکل تک نہیں دیکھی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ہمارے علاقے کا ٹرانسفارمر خراب پڑا ہے اور کوئی ٹھیک کرنے والا نہیں ۔ لیکن میری شکایت ان لوگوں سے بھی ہے جو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ اگر آج کوئی ایم پی اے ، ایم این اے یا سینیٹرہے تو انہی عوام کی وجہ سے ہے ۔ عوام کیوں اپنا حق نہیں مانگ رہی؟ 
خیر دو روز کی بجلی کا قصہ تو ختم ہوا لیکن ابھی تک مجھے پیغامات آرہے ہیں کہ بھئی نہ تو کوئی ہمارے ٹیلیفون سن رہے ہیں اور نہ بجلی کا کوئی خاص شیڈول ہے ۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ لوڈشیڈنگ ختم کرو۔ کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے لیکن خدارا صاحب اقتدار لوگوں! کوئی شیڈول تو بناو اور اس کو عملی کرو تاکہ لوگو ں کو معلوم ہو کہ کب بجلی صاحبہ جانے والی ہے اور کب آنیوالی ۔ اگر اسلام آباد میں یہ سب کچھ ہوسکتا ہے ، شیڈول بنا کر اس پر عمل ہوسکتا ہے تو ملاکنڈ کے دور دراز گاوں میں کیوں نہیں ؟ کیا وہ پاکستانی نہیں ؟ خیبرپختونخوا کے رہنے والے اسی سوال کے جواب کے منتظر ہیں ۔ 

شائع شدہ ۔ ۔ ۔ اخبارخیبر پانچ مئی 2015

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.