5/27/2015

میں اور میرا سگریٹ ۔ ۔ ۔ ۔ تصوراتی مکالمہ ۔ ۔ ۔ 15مئی 2015 ء ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام آباد

میں جب بھی سگریٹ کو ہاتھ لگاتا ہوں تو پلک جپکتے یاد آجاتا ہے کہ میں کیوں ایسا کررہا ہوں؟ صرف دھوا ں چھوڑنے کی خاطر اسکی مضر اثرات سے باخبررہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بے خبررکھنے کی کوشش کیوں کرتا ہوں۔مجھے میری زندگی کا حسین دور یعنی جوانی کی فکرلاحق ہونی شروع ہوجاتی ہے ۔کیونکہ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ سگریٹ جوانی کو تباہ کردیتی ہے لیکن میں نہیں مانتا کیونکہ جوانی دیوانی ہوتی ہے اور کیا پتہ کل ہو نہ ہو ، تو جو کرنا ہے آج ہی کرلو کل کا کیا بھروسہ ۔ اسی خاطر ایک اور کش لے کر سوچتا ہوں کہ اس کا فائدہ کیا ہے ؟ کیا میں اپنے پیسے فضول خرچ کررہا ہوں ؟ 100روپے کی ایک ڈبی زیادہ سے زیادہ ایک یا ڈیڑھ دن ہی چلتی ہے تو میں ان پیسوں سے کیوں نہ کوئی پھل خریدلوں تاکہ صحت کو نقصان کی بجائے فائدہ دے سکوں ۔ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ پھل سے مجھے لگاؤ نہیں اور سگریٹ سے ہے تو کیوں نہ اپنا شوق پورا کروں ۔ 
ایک دن میں نے سگریٹ سے پوچھا کہ تم میں کیا خصوصیت ہے کہ پاکستان کا ہر ستائیسواں شخص تمھیں اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور ہے ۔ سگریٹ پہلے میرے منہ تک آیا ، ایک زبردست کش دے کر کہا کہ بھئی میں تو خود کسی کے جیب میں نہیں گھستا نہ مجھ میں یہ صلاحیت ہے کہ کسی کے ساتھ زبردستی کروں لیکن تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارا سب سے عزیز، پیارا اور مخلص دوست کون ہے جو ہر وقت تمہارے ساتھ رہتا ہے ؟ میں سوچ میں پڑگیا اور سوچ سوچ کے بھول ہی گیا کہ سگریٹ میرے جواب کا انتظارکررہا ہے ۔ اتنے میں سگریٹ ایک بار پھر میرے منہ تک آیا اور مجھے ایک اور کش دے کر خود ہی جواب دینا شروع کیا اور کہا کہ بھئی مجھے پتہ ہے تمہارا کوئی ایسا دوست نہیں جو ہر وقت تمہارے ساتھ رہے ، تمہیں مصروف رکھے ، تمہارے غم بانٹیں، تمھاری خوشیوں میں شریک ہو ، تمہارے ساتھ دن رات ایک ہی جگہ پر رہ کر تمہارے ساتھ باتیں کرے ، تمہاری تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش کرے وہ بھی بغیر کسی لالچ کے ۔ آج کل تو دوست بھی بغیر کسی لالچ کے کسی کے ساتھ دوستی نہیں کرتا ۔ میں تو بے جان ہوں اور پھر بھی دن رات تمہارے ساتھ رہتا ہوں۔تم سوتے ہو تو تمہیں شب بخیر کہتا ہوں، تم اٹھتے ہو تو تمہارے لئے تم سے پہلے جاگ کر تمہیں صبح بخیر کہتا ہوں۔ جب زیادہ خفا ہوتے ہو تو تمہیں مصروف رکھتا ہوں۔ ہاں کچھ لوگ مجھے مضرصحت بھی کہتے ہیں لیکن میں اس دوست سے بہتر ہوں جو دوست ہوتے ہوئے تمہیں نقصان پہنچاتا ہے ۔ میں تو صاف کہتا ہوں کہ مجھ میں برائی زیادہ اور اچھائی کم ہے اگر مجھ سے دوستی کرنی ہے تو کرلو، نہیں کرنی تو نہ کر۔ میں کسی کو دوستی پر مجبور نہیں کرتا ۔مگر جب دوست بنوں تو ساری زندگی دوست کا ہاتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔ البتہ اگر دوست مجھے چھوڑنا چاہے تو میں ناراض بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کے واپس آنے کا انتظارکرتا ہوں۔ اگر وہ واپس آئے تو نہایت گرمجوشی کے ساتھ اسے خوش آمدید کہتا ہوں اور اگر پوری زندگی میں نہ آئے تو پھر بھی میں انتظار میں رہتا ہوں، میرا انتظار کبھی ختم نہیں ہوتا ۔میں غور سے اسے سنتا رہا اور آرام سے کش بھی ساتھ لیتا رہا ۔ پھر سوچنے لگا کہ یار اس بے چارے کا کیا قصور ہے، یہ تو نہایت بے ضرر چیز ہے ۔ کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا، بے وفائی نہیں کرتا، نہ کسی کو گالی دیتا ہے نہ کسی کو مارتا ہے ۔ نہ اس میں لالچ کا عنصر ہے اور نہ اس میں خودغرضی ۔ کم از کم ہم انسانوں سے تو بہتر ہے جو بغیر کسی لالچ کے کسی کے ساتھ ہاتھ بھی نہیں ملاتے ۔ جہاں تک ہوسکے اپنے عزیز واقارب اور دوست و احباب کو نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اپنی غرض و لالچ کی خاطر دوست یہاں تک کہ بھائی کی جان بھی لینے سے نہیں کتراتے۔ پھر میں سگریٹ سے مخاطب ہوا اور اس سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی لیکن جب اسے دیکھا تو کش لے لے کر میں نے اس کی جان لے لی تھی اور وہ ہنسی خوشی ایش ٹرے میں پڑا میری طرف دیکھ کرمسکرا رہا تھااوریہ کہہ کر مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اگر ایک چلاگیا تو اپنے قریب دیکھو میرے اور بھائی بہن بھی تمہارا ساتھ دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ان میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ میں دوسروں کی خاطر جان دے سکتا ہوں لیکن کسی کی تکلیف اور تنہائی برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی کہہ کر اس نے مجھے خداحافظ کہا اور میں ساری رات یہی سوچتا رہا کہ دنیا کے دوستوں سے یہ سگریٹ ہزار گنا بہتر ہے جو ہر وقت ، ہر پل اور ہر موقع پر اپنے دوست کا ہاتھ کبھی نہیں چھوڑتا ۔ 

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.