6/20/2015

مجھے سیاست سے ہے یاس

سکول کے دنوں میں اکبرآلہ آبادی کی ایک نظم پڑھی تھی جس کا ایک شعر میرے ذہن میں ابھی بھی گردش کررہا ہے:
خدا حافظ مسلمانوں کا اکبر ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تو انکی خوشحالی سے ہے یاس ۔ ۔ ۔ ۔ 
اسی شعرکے بارے میں کئی دنوں بلکہ کئی ہفتوں سے سوچ رہا ہوں کہ پاکستانی سیاست میں آج کل بہت کچھ اسطرح رونما ہورہا ہے جس سے انسانی اذہان پر مایوسی چھارہی ہے۔ اگر اکبر صاحب زندہ ہوتے تو شاید پاکستان کی سیاست کے بارے میں یہی شعر کچھ اسطرح لکھتے ۔
خدا حافظ ہو پاکستاں کا اکبر ۔ ۔ ۔ مجھے تو اسکی سیاست سے ہے یاس
(اکبرآلہ آبادی اور اردو ادب کے شعراء و ادیبوں سے معذرت کے ساتھ) ۔
 پھر یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ کیوں اکبر اتنی مایوسی میں یہ سب کچھ کہتے ۔ ذرا غور فرمائیں گاکہ سیاست کیا ہے اور کسی ملک میں سیاست کیوں کی جاتی ہے ۔ سیاست میں کون کامیاب اور کون ناکام ہوتا ہے ۔ سیاستدان کی پہلی ترجیح کیا ہونی چاہئیے اور سیاستدان کو اپنے نظریات کے ساتھ کتنا انصاف کرنا چاہئیے۔ 
بات نظرئیے کی آہی گئی تو سب سے پہلے اسی پہ بات کرتے ہیں ۔ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں دو قسم کی سیاسی جماعتیں موجود ہیں ۔ پہلی قسم دائیں بازوؤں کی جماعتیں اور دوسری بائیں بازوؤں کی جماعتیں کہلاتی ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ دائیں بازوؤں والے مذہب کی بنیاد پر سیاست کرتی ہے جبکہ بائیں بازوؤں کی جماعتیں اکثر لبرل ، سیکولر اور مذہب وسیاست کو الگ رکھنے کے نظرئیے پر یقین رکتھے ہیں ۔اب یہ کام عام انسان کا ہے کہ اس پر غور وفکر کریں کہ ایک سیاستدان اپنے نظرئیے کے بارے میں کتنا سنجیدہ ہے اور ایک سیاسی پارٹی کتنی اپنے نظرئیے پر سیاست کرتے کرتے قائم رہنے کی کوشش کرتی ہے ۔ فیصلہ آپ پر کہ آج پاکستان میں کتنی سیاسی پارٹیاں اپنے نظریات کی سیاست کرتے ہیں اور کتنا مخالف نظرئیے کو سپورٹ نہیں کرتے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں آج کل نظریات کی سیاست دفن ہوچکی ہے ۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ سیاست اگر نظرئیے پر شروع کی ہے تو اپنے نظرئیے کو کبھی بھی پس پشت نہیں ڈالنی چاہئیے ورنہ یہی نظریہ سیاست کو بھی پس پشت ڈال دیتی ہے اور پھر سیاست سیاست یا خدمت کی بجائے دروغ گوئی او خودغرضی بن جاتی ہے ۔ ہر سیاستدان پھر پاورپالیٹکس کے بارے میں سوچ وبچار میں مصروف عمل رہتا ہے ۔
اب بات کرتے ہیں سیاست اور جمہوریت کے ایک دوسرے اہم ستون کی ۔ پاکستان میں جمہوریت کی سیاست کے لئے ایک قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ کسی سیاست جماعت کے نظرئیے کو گھر گھر تک پہنچانے کاکام بغیر کسی لالچ یا ذاتی فائدے کے سرانجام دیتی ہے ۔ اس قوت کو کارکن کہاجاتا ہے اور یہی کارکن اصل میں کسی سیاسی،مذہبی،نظریاتی یا انقلابی تحریک کا وہ ستون ہے جس کے بغیر کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ کسی بھی پارٹی میں رہنماایک ہی ہوتا ہے جو صرف فیصلے کرتا ہے لیکن ان فیصلوں پر عمل کرنا اور کروانا کارکن کا کام ہوتا ہے ۔ پاکستان میں بھی ان کارکنان کی کبھی بڑی مقدار پائی جاتی تھی ۔ (یہاں کارکنان سے مراد نظریاتی و مخلص کارکنان ہیں) لیکن اب وہ کارکنان نہ ہونے کے برابر ہیں جن کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو سیاست کو سیاست سے زیادہ تجارت یا مفادات کی جنگ سمجھتے ہیں ۔ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ سیاسی جماعت کے قائدین اپنے کارکنان کی بڑی عزت کرتے تھے یہاں تک کہ ان کو اپنے کارکنان کے نام بھی یاد رہتے تھے ۔ اپنے کارکن کو وہ دور سے پہچانتے اور باقاعدہ نام لے کر پکارتے تھے ۔ اگر کسی عام کارکن پر کوئی بھی تکلیف آتی تو سیاسی جماعت کا مرکزی رہنما اس کی داد رسی اور خیریت جاننے کے لئے بذات خود تشریف لے جایا کرتے تھے ۔
لیکن یہاں پر بھی بدقسمتی سے کارکن کی وہ عزت نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی ۔ آج کا سیاسی کارکن اپنے لیڈر سے ملنے کے لئے کئی کئی دنوں انتظار کرتاہے لیکن پھر بھی اکثر ناکام لوٹ جاتا ہے اور اپنے لیڈر کی دیدار نصیب نہیں ہوتی ۔ اور تو اور کوئی سیاسی پارٹی اپنے ابتدائی دنوں میں جس طرح اپنے کارکن کو اہمیت دیتی ہے، اقتدار میں آکر یا مقبول ہوکر اسی کارکن کو بھول جاتی ہے جو کبھی اسکا اثاثہ ہوتا تھا اور جس نے انتھک محنت اور بیش بہا قربانیوں سے اسی جماعت کو مضبوط و مقبول کیا ہو ۔ یہاں تک کہ نئے لوگوں کے آنے سے پرانے چہرے بھول جاتے ہیں ۔ کوئی اگر سیکولر ہے تو مذہبی جماعت میں جاکر صوبائی صدر بن جاتا ہے ۔ کوئی اگر مذہبی جماعت سے تعلق رکھتا ہے تو سیکولر جماعت میں جاکر مرکزی و صوبائی عہدوں پر براجمان ہو کر اپنی ماضی کو مکمل طور پر بھول جاتا ہے ۔ پھر کارکن،نظریہ،سوچ، فلسفہ یا فکر بالکل بدل جاتے ہیں ۔ ہماری خوش قسمتی یا بدقسمتی لیکن یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ ایک مذہبی سیاسی پارٹی کا عہدیدار لبرل سیاسی پارٹی میں جاکر صوبائی صدر بن جاتا ہے ۔ اور تو اور ایک سوشلسٹ پارٹی کا مرکزی رہنما اور سابقہ وفاقی وزیر ایک دائیں بازو کی سیاسی پارٹی میں جاکر وائس چئیرمین بن جاتا ہے ۔ پھر کہاں گئی سیاست اور کہاں گیا نظریہ ؟
سیاسی پارٹیوں کی وفاداریاں تبدیل ہونا پاکستان میں ایک کلچر بن چکا ہے لیکن عوام اب بھی وہی کے وہی بغیر دماغ کے اپنے سیاستدانوں کی راہ تھک رہے ہیں ۔ نہ جانے کب عام جنتا(عوام) کو ہوش آئے گا کہ ایک سیاستدان کی اصلیت کو پہچاننے میں اندھی تقلید سے کام لینے کی بجائے اپنے دماغ کا استعمال کرنا شروع کریں ۔ بات یہاں سیاست کی نہیں کیونکہ پاکستان میں سیاست کرنا عبادت یا خدمت نہیں بلکہ اپنے مفادات کو وسعت دینا اور تحفظ کرنا ہے ۔ 
پاکستانی سیاست کا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جب اپنے مفادات کی بات آتی ہے تو پھر نہ دائیں بازو کی سیاست ذہن میں رہتی ہے اور نہ بائیں بازو کی ۔ نہ فلسفہ یاد رکھا جاتا ہے نہ نظریے کو ، نہ تو اپنے منشور کو ذہن میں رکھا جاتا ہے اور نہ ماضی کی تلخیوں کو ۔ بلکہ ایک معزز سیاستدان تو اس حد تک کہتے ہیں کہ سیاست مصلحت اور مکا کا ہی نام ہے ۔ اگر اسی طرح ہے تو پھر سادہ لوح عوام کو بیدار ہونا چاہئیے کہ پاکستانی سیاستدان عوامی نمائندے نہیں بلکہ اپنے آپ اور اپنے مفادات کے نمائندے ہیں ۔

یہاں ایک مثال دیتے ہیں ، پرویزمشرف دور میں شوکت عزیز پاکستان آئیاور انہیں وزیرخزانہ بنایا گیا۔ ان کی شہریت مشکوک تھی کیونکہ مبینہ طور پر ان کے پاس امریکی پاسپورٹ تھا اگر کوئی امریکی قومیت رکھے تو اسے اپنی پرانی قومیت چھوڑنا پڑتی ہے۔ کوئی امریکی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔ اس لئے اگر ان کے پاس امریکی شہریت ہے تو وہ پاکستان کی قانونی طور پر شہری اور وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے ۔ اسی بات پر چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کیس شروع کرنے لگے تھے مگر ان کو ایک ریفرنس کے ذریعے غیر فعال کردیا گیا۔ پرویزمشرف نے شوکت عزیز کو قومی مفادات کی خاطر برآمد نہیں کیا تھا بلکہ سابق ڈکٹیٹر کے اپنے مفادات تھے یہی معاملہ جمہوری حکمرانوں کا بھی ہے جو کہ ذاتی مفادات کے اسیر ہیں ۔ 


Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.