6/06/2015

کالا باغ سے اقتصادی راہداری تک ۔ ۔ ۔ جواب کالم

پاکستان کی بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ یہاں پر ایک قوم نہیں بلکہ کئی قومیں آباد ہیں اور ہر قوم اپنے آپ کو دوسرے قوم سے بہتر یا بالا سمجھتی ہے ۔ ہر قوم کی اپنی تاریخ، روایات،ثقافت،رسم و رواج اور عادات و اطوار ہیں جن میں وہ سب ایک دوسرے سے منفرد بھی ہیں۔ ہر قوم نے ایسے سپوت پیدا کئے ہیں جن پر پوری قوم فخر کرتی ہے ۔ ہر قوم اپنی مفادات کا خیال رکھنا بھی جانتی ہے اور انہی مفادات کی تحفظ کرنا اس قوم کا ہر فرد اپنا اولین فرض سمجھتا ہے ۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں کچھ ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو پاکستان کو ایک ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس ملک کو اگر ملک بنانا ہے اور ملک بنا کر چلانا ہے تو ہر کمیونٹی ،زبان اور قوم کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ پشتون،بلوچ،پنجابی،سرائیکی،سندھی،مہاجر،اسماعیلی،کوہستانی،کشمیری،گجر اور اسی طرح اس خطے میں رہنے والی ہر قوم ایک جیسے اہمیت کی حامل ہے۔ 

اب اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو پھر پاکستان کی ترقی کا خواب شاید ادھورا رہ جائے گا کیونکہ ایک صوبے یا ایک خطے کے لوگوں کو اہمیت دینا اور دوسروں کو نظرانداز کرنے سے لوگوں کا احساس محرومی اور احساس کمتری کی کیفیت میں مبتلا ہونا ایک فطری امر ہے ۔ ایسے حالات میں ملک کے چیف ایگزیکٹیو کی اولین ذمہ داری ایک مخصوس طبقے کی حمایت کی بجائے پورے ملک کے رہنے والوں کی احساس محرومی کو ختم کرنا بنتا ہے ۔ 
اتنی بڑی تمہید لکھنے کا مقصد ہمارے ایک محترم اور سینئیر صحافی عبدالقادر حسن کے لکھے گئے کچھ الفاظ کے بارے میں بحیثیت پختون اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے ۔31مئی 2015ء کو لکھے گئے کالم بعنوان"میاں صاحب ! مبارکاں" میں ہمارے محترم صاحب نے کہا ہے کہ "پاکستان بنے مدتوں گزرگئے لیکن کچھ لوگوں کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوابلکہ ذرا ذرا سی بات پربھڑک اٹھتا ہے " ۔ آگے صاحب لکھتے ہیں کہ "کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ بعد از وفات یہ غصہ بھی بزرگوں کی طرح کسی افغانستان کی سرزمین پر نکال لیا جاتا"۔ اسی کالم میں آگے محترم صاحب نے ایک قوم کو کالاباغیوں کا لقب دیا ہے او ر لکھا ہے کہ" ہمارے وزیراعظم نے معجزہ دکھا دیا کہ اس منصوبے کو کالاباغیوں سے بچا لیا اور ایک متفقہ زندگی دے دی ۔"
ایک پشتون باپ کا بیٹا ہوتے ہوئے میں یہ ہرگز گوارا نہیں کروں گا کہ کوئی میرے خاندان یا میرے آباو اجداد کے بارے میں ایسی ویسی زبان کا استعمال کرے ۔اپنی برادری کو سچا،ایماندار اور محب وطن ثابت کرنے کے لئے کوئی کتنا بھی کوشش کریں لیکن آج کے دور میں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ انسان کا عمل اور اسکی پوری زندگی لوگوں کے سامنے ہی رہتی ہے خصوصاً وہ لوگ جو اپنے آپ کواپنے پیشے کے سلیبریٹی کہلاتے ہیں ۔ اسی میں ایک صحافی کا اپنے قوم کی اچھائی اور دوسرے کی برائی بیان کرنا کم از کم میرے سمجھ سے بالاتر ہے ۔ پشتون کو طعنہ دینا کہ انہوں نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ایک غیرمنطقی دعویٰ ہے کیونکہ ابھی تک پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے اکثریتی صوبہ نے تمام صوبوں پر اپنی برتری قائم رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ یہ تو بھلا ہو پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کا جنہوں نے این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم کی شکل میں چھوٹے صوبوں کو اپنے حقوق کے لئے مدتوں سے جاری کوششوں کا کچھ صلہ دیا۔ 
پشتونوں پر یہ الزام بالواسطہ اسی کالم میں لگایا گیا ہے کہ وہ ابھی تک پاکستان کو نہیں مانتے تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ پشتونوں کے رہنما فخرافغان باچا خان نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد میں استصواب رائے کے لئے پختونستان کے نام سے پشتونوں کے لئے پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ تیسری آپشن دینے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ نہ مانا گیا ۔(بحوا لہ آزادی ہند ۔ مولانا ابوالکلام آزاد)پاکستان بن گیا تو سب نے مان لیا۔ اسلامی جماعتوں نے بھی پاکستان بننے کی مخالفت کی لیکن جب پاکستان بن گیا تو سب نے کھلے دل سے تسلیم کرلیا۔ پاکستان بننے کے بعد خود فخرافغان باچا خان پاکستان کے قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے اور انکے بیٹے خان عبدالولی خان سمیت تمام خاندان ابھی تک پاکستان کے وفاداری کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ پشتون صرف یہ ایک خاندان نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے دوسری بڑی قوم کی حیثیت سے اس ملک میں رہ رہے ہیں ۔ اب اگر اس قوم کی مفادات کا خیال نہیں رکھا جارہا اور وہ اپنے حقوق کے لئے میدان میں نکل آئے تو ان کو کچھ قوتیں غدار یا ہمسایہ ملک کے ایجنٹ قرار دے رہے ہیں ۔
کالاباغ ڈیم کے حوالے سے اس کالم میں بتایا گیا ہے کہ اس منصوبے کے خلاف تو کوئی دلیل نہیں لیکن اس کے حق میں ماہرین کی دلیلیں موجود ہیں جو بلاشبہ ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر اسی طرح ہے تو ہم بھی اسی ملک میں رہ رہے ہیں اور توانائی کی کمی کی وجہ سے جتنا دوسرے صوبوں کے رہنے والے متاثرہیں اس سے زیادہ پختونخوا کے لوگ ہورہے ہیں۔ کوئی کیوں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کرزندگی گزارنا پسند کرے گا۔اگر کوئی پشتونوں کو کالاباغ ڈیم پر مطمئن کرسکتا ہے تو یا بسم اللہ ۔ 
آخر میں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اس صوبے میں صرف پشتون نہیں رہ رہے بلکہ کئی قومیں آباد ہیں اور سب ہنسی خوشی اتفاق کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اور ہاں ! پختونخوا کے سیاسی رہنماؤں کا تعلق صرف ایک پارٹی سے نہیں جن کے رہنما افغانستان میں دفن ہیں یا جنہوں نے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کی تھی۔ اب تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جنہوں نے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کی سربراہی میں اپنے حقوق کی جنگ لڑی اور وفاقی حکومت نے ان کے مطالبات بھی مان لئے ۔
محترم کے غیرسیاسی باتوں سے یہ تاثر ملا ہے کہ پختونخوا کی ہر جماعت کا مقصد صر ف ایک ہی ہے اور وہ ہے پاکستان کی ترقی کی مخالفت۔ خدارا پاکستان کو قومیت کی بنیاد پر تقسیم کے پروپیگنڈے کو اور ہوا نہ دیں ورنہ 1971ء ہم ابھی تک نہیں بھولے ہیں ۔ 
آخر میں پنجاب کے لئے لکھنے والے تمام صحافیوں سے ایک گزارش ہے کہ کبھی جنوبی پنجاب کے لوگوں کی آواز بھی اٹھائے کیونکہ وہ بھی پاکستانی ہے۔ بہت بہت شکریہ

یہ کالم روزنامہ اخبارخیبرمیں 04 جون 2015 ء کو شائع ہوا تھا

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.