6/28/2015

سیاست ،سیاست اور سیاست

ایک صاحب سے سنا تھا کہ سیاست کا لفظ اساس سے نکلا ہے جس کی لغوی معنی ہے بنیاد، یعنی سیاست کا مطلب ریاست کی بنیاد ۔ اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے محترم سیاسی رہنما بھی سیات کرتے ہیں اور بڑے بڑے جلسوں میں اصل سیاست کرتے ہوئے خدمت خلق کے جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں ۔ یہی سیاستدان جلسوں میں تقریر کرتے ہوئے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارا مقصد عوام کی خدمت ہے ۔ ہم سیات کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں اور ہر سیاستدان عوام کا اصل نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ جب بات حقیقت تک پہنچتی ہے تو انکے سیاست کا مطلب خدمت تو ہوتی ہے لیکن عوام کی نہیں بلکہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کی ۔ وہ سیاستدان جو اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو حکمران جماعت پر بڑی تنقید کرتے ہیں کہ انکو شرم کرنی چاہئیے ، مستعفی ہونا چاہئیے اگر عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے ۔ جب خود اقتدار میں آتے ہیں تو پھر بھول جاتے ہیں کہ ہم سیاسی جلسوں میں کیا کچھ کہتے چلے آرہے تھے اور عملی طور پر کیا کچھ کررہے ہیں ۔ 
پاکستان میں بدقسمتی یا خوش قسمتی سے جمہوریت ہے ۔ جسکی تعریف ہر کسی نے کتابوں میں یہی پڑھی ہوگی کہ جمہوریت کا مطلب عوامی حکومت، عوام کے لئے حکومت اور عوام کے ذریعے حکومت ہے ۔ لیکن اس مملکت خداداد میں سب کچھ الٹ ہی ہورہا ہے ۔ سیاستدان ناکام ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو انتہائی کامیاب دکھانے کی بھرپور کوشش میں ہے۔ چاہے عوام کتنی بھی غربت کی چکی میں پھس رہی ہو لیکن ان کو اسمبلیوں میں تقریروں،بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے، میٹنگز اور میڈیا پر ٹاک شوز سے فرصت نہیں ملتی ۔ اپوزیشن ہو یا حکمران جماعت ، دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ سیاست کو کھیل سمجھ کر اپنی باری کامیابی سے کھیلنا اور انتخابات سے پہلے عوام کو کچھ دے کر پھر سے نئے انتخابات میں مطمئن کرنا ۔ 
پاکستان کو بنے 68 سال سے اوپر کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن جو آج دیکھنے کو مل رہا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ ہوا ہو ۔ شدید گرمی اور حبس سے کراچی میں سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں، پورا ملک لوڈشیڈنگ کے خلاف بہ احتجاج ہے ،صوبائی سطح پر منافرت میں اضافہ ہورہا ہے ، صوبائی حکمران اپنے حق کے لئے دھرنا دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، وفاق میڈیا میں اور اسمبلی کے فلور پر لوگوں کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ دو سال میں سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا۔ حالانکہ یہی لوگ انتخابات سے پہلے دعویٰ کررہے تھے کہ ہم ایک سال کے اندر اندر ملک کو تاریکیوں سے نجات دلائیں گے ۔ شاید اب وہ اپنا وعدہ بھول چکے ہیں لیکن ہمیں یاد ہے ذرا ذرا ۔ 
وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں سے ناراض،صوبائی حکومت وفاق سے ناراض۔ اپوزیشن حکمران جماعت کے خلاف احتجاج پر اور عوام دونوں کے خلاف ۔ اب ہوگا کیا ؟ عوام کریں تو کیا کریں ؟ اپنے بنیادی حقوق کی جنگ کس کے خلاف اور کس کے زور پر لڑیں ؟ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ جناب پرویزخٹک صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ہمارا حق نہیں دیا جارہا ۔ ہم جتنی بجلی پیدا کررہے ہیں اس پر بھی ہمارا اختیار نہیں ۔ سندھ حکومت بجلی کے بحران اور کراچی سمیت صوبہ کے مختلف شہروں میں گرمی سے سینکڑوں ہلاکتوں کی ذمہ داری وفاق پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے ۔ بلوچستان والے کچھ کہہ نہیں سکتے کیونکہ وہ تو وفاقی حکومت کے اتحادی ہیں ۔ پنجاب کو کیا کہنا ہے ، وہ تو بڑا صوبہ ہے اور پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لئے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ 
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی سیاست ہے کیونکہ یہاں پر سیاست کے نام پر جو کھیل گذشتہ 68برسوں سے کھیلا جارہا ہے اس نے صرف اس ملک کے اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا ہے کسی غریب کو نہیں ۔ غریب وہی کا وہی غربت کی چکی میں پھس رہا ہے اور امیر امیر سے امیر تر بن رہا ہے ۔ عوام کو شاید اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ہم کون ہیں اور کیا کچھ کرسکتے ہیں ۔ جو صورتحال ہم 2008ء سے پہلے دیکھتے چلے آرہے تھے وہ اب نہیں ۔ افغانستان پر حملہ ہوا تو پاکستان کے عوام اپنے سڑکوں پر نکل آئے او رامریکی جارحیت کے خلاف اپنے املاک کو نقصان پہنچانے کی بھر پور کوشش کی ۔ یہاں تک اس وقت کے آمر حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے پتلے جلائے گئے لیکن اب اگر اپنے ہی حقوق ان کو نہیں مل رہے تو چُپ چاپ بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ اس وقت بھی یہی سیاستدان تھے جو عوام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے تھے، خصوصاً مذہبی جماعتوں نے عوامی طاقت کا بھرپور استعمال کیا ۔ اب عوام کو خود سکھ و چین کی زندگی میسر نہیں لیکن کوئی کچھ نہیں کہتا ۔ شاید اب عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ، نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کچھ نہیں کرسکتے ۔ جمہوریت تو نام ہی جمہور کا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی جمہوریت کا عملی مظاہرہ کچھ اور ہی نظر آرہا ہے اور یہاں جمہور کا مطلب ایک خصوصی مجمع ہے جو نام،پارٹیاں، نعرے یا شکلیں بدل بدل کر اس ملک کے لوٹ رہے ہیں ۔ 
کراچی میں ہیٹ سٹروک ہویا خیبرپختونخوا کے علاقہ بنوں میں موجود بے گھر افراد کا مسئلہ ، پنجاب میں پولیس گردی ہو یا بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات۔ سیاستدان صرف سیاسی بیانات تک محدود ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ہر کوئی کوشش کررہا ہے کہ پوائنٹ سکورنگ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے پائے اورآنیوالے الیکشن کے لئے اپنی پوزیشن مضبوط کرسکے ۔ برباد کون ہورہا ہے؟ مستقبل کس کا تباہ ہورہا ہے؟ زندگی کس کی اجیرن بن چکی ہے؟ بجلی کس کو نہیں مل رہی؟ مہنگائی کا طوفان کس کے سر پر منڈلا رہا ہے؟ ذخیرہ اندوزی کے نقصانات کون برداشت کررہا ہے؟ بے روزگاری اور ناخواندگی کا شکار کون ہورہا ہے؟؟ اس کا جواب صرف ایک لفظ ہے اور وہ ہے غریب، جو ابھی تک اپنی طاقت سے بے خبر چپ چاپ بیٹھا تماشا دیکھ رہا ہے ۔ اسی طرح اگر غریب صرف تماشا دیکھتا رہا تو سب کچھ اسی کے اوپر آتا رہے گا اور سیاستدان اپنی سیاست کرتے رہیں گے کیونکہ حالات کیسے بھی ہو ان کو سیاست کرنا آتا ہے جس کے لئے ان کے پاس ملک ، اسمبلی،پارٹی اور پیسہ سب کچھ ہے ۔ ۔ غریب کو سوچنا ہوگا اور بیدار ہونا پڑے گا ورنہ حالات کبھی بھی خود نہیں بدلتے ان کو بدلنا پڑتا ہے ۔ 


Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.