2/15/2019

وہ سامنے تھی۔۔۔ مگر

'وہی شام کی خنکی، وہی ٹھنڈا موسم، وہی بارش کے قطرے، وہی گاڑی، وہی لباس، وہی ہاتھ میں سگریٹ کے دو پیکٹ، وہی جوتے جو اس نے برتھ ڈے پر گفٹ کئے تھے، وہی موفلر جو اس کے ساتھ اکٹھے خریدا تھا، وہی ٹوپی جو سردی سے بچنے کے لئے اسی نے خرید کر دیا تھا اور وہی جگہ جہاں ہم اکثر شام کے بعد بیٹھا کرتے تھے، جہاں ہم تاش کے پتے ساتھ لے کر جاتے تھے اور وہ اکثر اسے ہی جتاتا تھا'۔ آج ایک بار پھر وہی جگہ لیکن نظارہ بالکل الٹ۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور مزے سے کھانا کھارہی تھی کہ اچانک اس کی نظر اپنے اس پرانے محبوب پر پڑی۔ اس کے ہاتھ اور منہ کے درمیان نوالہ رک گیا، وہ شاید چاہتی تھی کہ اسے پرانی نظروں سے دیکھ لے، اسے گلے ملے، شکوے کریں، اس کے دوستوں کے ساتھ ان کا تعارف ہوجائے کیونکہ اسی جگہ کی پرانی یادیں اسے ہر وقت بڑی تڑپاتی رہتی تھی، لیکن بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اب وہ بدل چکا تھا، اب وہ پرانے جیسا نہیں رہا تھا، اب وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ سامنے سے گزر کر بھی اس کی طرف نہ دیکھ سکا یا دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے دوست بھی حیران و پریشان تھے کہ کیونکر اس سے ملا تک نہیں۔ اگر اس سے نہیں ملنا تھا تو وہ دوست جو اس کے پاس بیٹھی تھی، وہ بھی ان کو جانتی تھی لیکن اس کو بھی سلام تک نہ کیا۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس کے دوستوں کے ذہنوں میں بیسیوں سوال اٹھنے لگے لیکن دور جاکر ایک جگہ بیٹھ گئے۔
            باتوں ہی باتوں میں ایک دوست نے صرف اتنا پوچھا کہ یہ لڑکی وہ نہیں تھی؟ اس نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا کونسی لڑکی؟ یہاں تو بہت ساری لڑکیاں بیٹھی ہوئی ہیں اور پھر بات کو بدلتے ہوئے ویٹر کو آواز دی۔۔۔ جب ویٹر آیا تو وہ بھی حیران رہ گیا کیونکہ یہی ویٹر ان سب واقعات کا شاہد تھا کہ جب وہ اکٹھے آتے تھے، اکٹھے بیٹھتے تھے، اکھٹے کھانا کھاتے تھے اور اکھٹے ہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر واپس چلے جاتے تھے۔ آج کیا ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کو پیٹھ دکھارہے تھے۔ ویٹر نے بھی حیران نظروں سے دیکھ کر پوچھا، "جی صاحب کیا کھائیں گے"؟ وہ سمجھ گیا کہ ویٹر کے ذہن میں بھی سوالات کی بوچھاڑ چل رہی ہے لیکن بیچارا پوچھ نہیں سکتا۔ دوستوں کی باتیں ہورہی تھیں، یہاں وہاں کی باتیں جاری تھی کہ اتنے میں وہ اٹھ کر وہاں سے چلی گئیں۔ اس نے شکر ادا کرتے ہوئے پیچھے مڑنے کی کوشش کی لیکن نہ مڑ سکا کیونکہ وہ اسے احساس دلانا چاہتا تھا کہ اس نے جو کیا وہ اب بھی اس کے ذہن میں نقش ہیں۔ وہ اب بھی محبت اور نفرت کے درمیان ایسی زنجیروں میں اپنے آپ کو بندھا ہوا دیکھ رہا ہے جہاں وہ گھنٹوں گھنٹوں اس کی گلی میں کھڑا ہو کر رات دیر تک صرف اس کے ایک ایس ایم ایس کا انتظار کررہا ہوتا تھا۔ وہ اب بھی اپنے آپ کو اس بند گلی میں کھڑا دیکھ رہا تھا جب اس نے غصے میں فون کاٹتے ہوئے اسے کہا تھا، “You are no one for me” اور اسی بات کو لے کر وہ کئی دن سو نہ سکا تھا۔ جب اس نے کہا تھا کہ ہمارا تعلق اب نہیں رہا، تم میرے اچھے دوست ہو اور بس ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن بھی اسے یاد آرہے تھے جب ساری ساری رات وہ اسے اپنی غزلیں سنایا کرتا تھا اور پھر اس کے آنسو پونچھتا تھا۔
            یہ ساری یادیں کھانے کے میز پر اس کے سامنے ایک فلم کی طرح چل رہی تھی کہ اتنے میں کھانا آگیا اور سب کھانا کھانے لگے لیکن اس کی ایک نظر اس میز کی طرف بھی تھی جہاں اس کا پیار اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر مستیاں کررہی تھی۔ وہ اپنی توجہ ہٹانے کی بھرپور کوشش کررہا تھا کہ اتنے میں اندر سے گانے کی آواز آنی شروع ہوگئی جس کے بعد ایک لڑکی ڈانس کرنے لگی۔ یہ سارا نظارہ اس کے ذہن میں نقش تھا اور اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوچکا ہے یا شاید ہر رات اس کے ساتھ یہی سب کچھ ہورہا ہے حالانکہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اب زندگی بھر اس کو اپنی شکل نہیں دکھائے گا۔ وہ اب بھی اپنے وعدے پر قائم تھا لیکن قدرت نے انہیں دوبارہ ملانا تھا اور صرف نظریں ہی ملاسکیں۔ وہ وہاں اور نہیں ٹھہرنا چاہتا تھا لیکن اپنے دوستوں کے سامنے صبر کی گولی کھاکر بیٹھا ہوا تھا۔ تین نوالے کھائیں اور سیگریٹ سلگائی۔ اس کے پاس بیٹھے دوست یہ سب کچھ محسوس کررہے تھے لیکن منہ سے کچھ نہیں کہہ رہے تھے کیونکہ یہی دوست تھے جب وہ انتہائی اذیت کے دنوں میں ساری ساری رات روتا تھا، تو وہ اسے دلاسہ دیتے تھے، تسلیاں دیتے تھے کہ زندگی ایک شخص کے جانے کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتی اور وہ صرف یہ کہہ کر زاروقطار رونے لگتا تھا کہ "آخر کیوں؟؟؟ میرا قصور کیا تھا؟"
            کھانے کے بعد اس نے پھر ویٹر کو آواز دی اور قہوے کا کہہ کر پھر چپ ہوگیا۔ اس کے دوست کبھی سیاست پر بات کرتے اور اس سے سوال کرتے لیکن وہ کچھ جواب نہ دیتا۔ پھر محبت پر بات شروع ہوگئی تو بھی وہ چپ۔ کاروبار پر بحث چڑگئی تو اس نے کوئی حصہ نہیں لیا۔ صحافت پر بات ہوئی لیکن اس کو نہیں بولنا تھا کیونکہ وہ اپنی یادوں کے اس جہاں میں گھوم رہا تھا جہاں اب وہ انتہائی اکیلا کھڑا تھا۔ نہ ماں باپ اس کے ساتھ تھے، نہ بھائی بہن اور نہ وہ جس کی خاطر اس نے سب کچھ چھوڑا تھا۔
            وہ سب کھانا کھاچکے تھے، قہوہ بھی پی گئے اور اسے دھکا دیتے ہوئے جگایا کہ اب بس۔۔۔ یہاں سے چلنا ہے۔ اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو اسے کوئی نظر نہیں آیا اور ایسا لگا جیسے اس کے سامنے دنیا بالکل تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہو۔۔۔۔۔ وہ اپنے ایک جگری یار کے کان میں بس اتنا کہہ سکا۔۔ اسے دیکھا پر دیکھ نہ سکا اور گاڑی میں بیٹھ کر اس شہر سے واپس ہوگئے کیونکہ اب وہ شہر اس کا نہیں رہا۔

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

2 comments:

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.