آج سے آٹھ دس سال پہلے میں نے عمران خان کو پہلی بار براہ
راست دیکھا تھا جب وہ سخاکوٹ ملاکنڈ میں اپنے ایک جلسہ سے خطاب کر رہے تھے ۔ کرکٹ
اور کرکٹروں کے ایک چاہنے والے کے حیثیت سے میں بھی انکو دیکھنے اور سننے کے لئے
گیا تھا تب سے آج تک عمران خان کو میں نے صرف ایک سپورٹس پرسن کی حیثیت سے ہی
مانا ہے گو کہ اب انکی سیاست بھی مرکزی سیاست میں ایک اہم کردار اختیار کرچکا ہے
لیکن سیاست اور صحافت کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے میرا دل سیاست سے زیادہ
عمران خان کو ایک سوشل ورکر اور پاکستان کے لئے1992ء میں رلڈ کپ جیتنے والے کپتان کی
حیثیت سے مانتا چلا آرہا ہے ۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ یہ ٹوٹے پھوٹے
الفاظ پڑھنے کے بعد میری تواضع کن الفاظ سے ہونی ہے لیکن میں اس بات کا قائل ہوں
کہ سچ اور حق بات
کرنا انسان کے فطرت میں ہونا
چاہئیے ۔
اسلام آباد میں آج کل سیاسی ہلچل اپنے زوروں پر ہے ۔ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ تو دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کا انقلاب مارچ اپنے زوروں پر ہے ۔ دونوں جماعتوں کے قائدین اپنے مطالبات میں اشتراکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں بھی اس حوالے سے کافی جوش دیکھنے میں آرہا ہے ۔ لیکن اب دونوں اطراف سے کچھ ایسی گذارشات کا سلسلہ نظر آرہا ہے کہ ہر کو ئی یہی کہنے پر تُلا ہوا کہ آخر کون ہے وہ جو اس قسم کے سکرپٹ لکھ کر ان دونوں کو یکجا کرکے بھی ایک نہ کرسکا ۔ شروع دن سے ہی یہی بات سننے کو مل رہی ہے کہ دونوں کا سکرپٹ رائٹر ایک ہی ہے اور کچھ دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ سکرپٹ کہا ں لکھا گیا ہے لیکن بغیرثبوت کے لکھنا مناسب نہیں ۔
اسلام آباد میں آج کل سیاسی ہلچل اپنے زوروں پر ہے ۔ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ تو دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کا انقلاب مارچ اپنے زوروں پر ہے ۔ دونوں جماعتوں کے قائدین اپنے مطالبات میں اشتراکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں بھی اس حوالے سے کافی جوش دیکھنے میں آرہا ہے ۔ لیکن اب دونوں اطراف سے کچھ ایسی گذارشات کا سلسلہ نظر آرہا ہے کہ ہر کو ئی یہی کہنے پر تُلا ہوا کہ آخر کون ہے وہ جو اس قسم کے سکرپٹ لکھ کر ان دونوں کو یکجا کرکے بھی ایک نہ کرسکا ۔ شروع دن سے ہی یہی بات سننے کو مل رہی ہے کہ دونوں کا سکرپٹ رائٹر ایک ہی ہے اور کچھ دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ سکرپٹ کہا ں لکھا گیا ہے لیکن بغیرثبوت کے لکھنا مناسب نہیں ۔
عام طور پر پاکستان کے سیاسی ماحول کو اگر دیکھا جائے تو دو
قسم کی سیاست نظر آتی ہے یعنی کچھ جماعتیں مرکز کی سیاست کر رہے ہیں تو کچھ
صوبائی ۔ کچھ لسانی بنیادوں پر سیاست کر
رہے ہیں تو کچھ قو پرستی کے بنیاد پر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف
کی سیاست کا پہلے دن سے یہی نعرہ ہے کہ ان کی سیاست ایک مرکزی سیاست ہے اور تمام
صوبوں میں انکی سیاست چلتی رہے گی ۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف
پہلی بار پوری زور سے ابھر کر سامنے آئی اور سب کو یہ ماننا پڑا کہ پاکستان کی
تیسری بڑی پارٹی (گو کہ تحریک انصاف کے
کارکنان اپنے آپ کو دوسری بڑی پارٹی سمجھتے ہیں لیکن قومی اسمبلی میں نشستوں کے
حساب سے تیسرے ہے) تحریک انصاف کے کردار اور وجود سے انکار اب ممکن نہیں رہا ۔
13 اگست 2014 ء سے شروع آزادی مارچ کے تقریبا 13 دن گزر چکے
ہیں لیکن کوئی بھی فریق (مرکزی حکومت اور تحریک انصاف) اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کا
نام نہین لے رہے ۔ مرکزی حکومت صرف ایک
مطالبہ کے علاوہ تحریک انصاف کے تمام پانچوں مطالبہ ماننے کو تیار بھی ہے لیکن تحریک
انصاف کی قیادت اس پہ راضی نہیں ۔
ان سب باتوں سے ہٹ
کر ایک بات جو اکثر پاکستان تحریک انصاف
کے آزادی مارچ کو دیکھتے ہوئے میں محسوس کرتا چلا آرہا ہوں اور وہا ں پر موجود
لوگوں سے باتین کرنے سے بھی میرے مؤقف کی شاید تھوڑی سی توثیق ہوجائے کہ جو لوگ دن
رات وہاں پر موجود رہتے ہیں ان میں زیادہ تر بلکہ 90فیصد تعداد پشتونوں کی ہے جس
سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سب سے زیادہ اگر کوئی کھڑے
ہیں تو وہ ہیں پشتون ۔۔۔۔۔۔ اور بنتا بھی ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کو
پاکستان کے کسی بھی دوسرے صوبہ میں اتنی
اکثریت نہیں ملی جتنی پختونخوا میں ملی
۔ آزادی مارچ کے دوران سٹیج پر
بھی پشتونوں کا راج رہا اور آبپارہ سے پریڈ ایونیو تک سٹیج میں 80 فیصد ممبران کا
تعلق صوبہ پختونخوا سے تھا ۔ پختونوں کو
ایک شکایت عمران خان سے ضرور ہوگی اور اس غصے کا اظہار وہ این اے 1 کے ضمنی
انتخابات میں بھی کر چکے ہیں کہ کیوں عمران خان نے این اے 1 کی نشست چھوڑی لیکن پھر بھی ابھی تک پشتونوں کی ایک بڑی تعداد
عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہے اور یہی عزم دل میں رکھے ہوئے ہیں کہ مرتے
دم تک عمران خان کا ساتھ دیتے رہیں گے ۔
پختونوں کی سیاست عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی
پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی (ولی) اور قومی وطن پارٹی بھی کر رہی ہے لیکن ان سب کے
بعد اب تحریک انصاف میں بھی یہ عنصر غالب نظر آرہا ہے اور مجھے خدشہ یہ بھی نظر
آرہا ہے کہ کہیں تحریک انصاف کی سیاست پختونوں تک محدود نہ ہوجائے ورنہ عمران خان
کا وزیر اعظم بننے کا خواب اسفندیار ولی خان، محمودخان اچکزئی، بیگم نسیم ولی خان
اور آفتاب شیرپاؤ کی طرح ادھوری رہ جائیگی کیونکہ انکی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کر
گئی ہے ۔ ساٹھ سال کے حوالہ سے ایک پشتو
ضرب المثل بہت مشہو ر ہے کہ چے د شپیتو شی نو د ویشتو شی یعنی جب کوئی ساٹھ سے
تجاوز کر جائے تو پھر اسکا مرنا ہی بہتر ہے ۔
یہاں پر میرا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی
سیاست کو محدود قرار دیکر ایک سنگین جرم کا مرتکب ہوجاؤ لیکن حالات و واقعات اور
آزادی مارچ میں ثابت قدم رہنے والوں سے بات کرنے کے بعد میرے ذہن میں ایسے ہی ایک
خیال سی پیدا ہوئی جسکا اظہار ان چند لفظوں میں کرکے اپنے دل کی بات اپنے محترم قارئین کے ساتھ شریک کی ۔
اللہ سے یہی دعا ہے کہ پاکستان ہمیشہ صحیح وسلامت اور قائم و دائم رہے ۔ آمین
THE ARTICLE WAS PUBLISHED IN DAILY “AKHBAR-E-KHYBER” ON AUG
31st 2014
0 comments:
Post a Comment