9/10/2014

کبوتر والا نوجوان


 آج کل ہر کسی کے لکھنے کا ایک ہی موضوع ہے اور وہ ہے اسلام آباد میں جاری سیاسی ہلچل ،ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے والے سیاستدانوں کی الزام تراشیوں کو اور بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ اسیلئے میں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ اس سے ہٹ کر کوئی ایسے موضوع پر لکھا جائے جس کا تعلق ہمارے مستقبل سے ہو ۔
  بچپن سے ایک بات ہمیشہ سنتے آرہے ہیں کہ جہاں کبوتر پائے جاتے ہیں وہاں بسنے والوں کے رزق میں برکت نہیں رہتی اسی لئے بچپن ہی سے ان پالنے والے جانوروں کے مخالف رہا ہوں اور نہ کبھی اس طرح کا شوق رہا ہے ۔چونکہ میری پرورش کسی حد تک اسلامی ماحول میں ہوئی ہے اور اسلامی معاشرے میں تو بعض جانوروں کے پالنے کو گناہ کی حد تک سمجھا جاتا ہے ۔ مثلاًاسلامی سوچ رکھنے والے لوگوں سے ہم شروع ہی سے یہی بات سنتے چلے آرہے ہیں کہ جس گھر میں کتا پالا جاتا ہے وہاں پر رحمت کے فرشتے نہیں آتے حالانکہ ہم نے بہت سے ایسے بابرکت گھر بھی دیکھے ہیں جہاں پر اعلیٰ نسل کے کتے اور دوسرے جانور پالے جاتے ہیں ۔خیر اب اپنے اصل موضوع کی طرف آنے کی جسارت کرتے ہوئے اپنی کہانی کی شروعات ویسے ہی کروں گا جس طرح دیکھا اور محسوس کیا ۔

  16 جون 2014 کو دوپہر اسلام آباد سے سخاکوٹ ملاکنڈ کی طرف جانے کا ارادہ کرتے ہوئے چل پڑا اور خلاف معمول میں پیر ودھائی بس سٹاپ سے مردان کی گاڑی میں بیٹھ کر تقریباً دو گھنٹے میں مردان پہنچ گیا ۔مردان تک پہنچنے کا سفر بھی بڑا دلچسپ تھاکیونکہ نواز حکومت کی دین موٹروے آج کل پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بڑی نعمت سے کم نہیں ۔ لیکن پہلی بار ایک ایسی گاڑی میں سفر کرنے کا موقع ملا جو شکل سے بڑا جاندار اور نیا ہوتے ہوئے بھی موٹروے کو جی ٹی روڈ میں تبدیل کرنے اور محسوس کروانے کا گر رکھتا تھا ۔ خیر مردان پہنچ کر گاڑی سے اترنے کے بعد میری پہلی نظر ان ہتھ گاڑیوںاور ریڑھوں پر پڑی جو عین سڑک کے درمیان کھڑی ہوکراس پر مختلف قسم کی اشیا ءفروخت ہو رہی تھیں ۔ میں تجاوزات کی بات اگر نہ بھی کروں لیکن ایک چیز جو مجھے کھائی جارہی تھی وہ یہ تھی کہ ایک ریڑھی میں پڑی کولڈ ڈرنک کی بوتلیں نہایت ارزاں قیمت پر دستیاب تھیں۔ ارزاں قیمت کا مطلب ہم سب جانتے ہیں کہ کیوں ایک چیز جس کی نارمل قیمت سو روپے ہو اور آپ کو وہی چیز پچاس روپے میں مل جاتی ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاں پر فروخت کی جانے والی تمام چیزیں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق فروخت کی جارہی ہوں اور ہر وہ شخص جو اپنے بچوں کو سستے کولڈ ڈرنکس پلانے کی غلطی کرے گا وہ یقیناکسی نہ کسی مشکل کا سامنا ضرور کرے گا۔ یہاں پر یہ بات میرے لئے انتہائی اہمیت کی حامل بن گئی تھی کہ ہمارے صوبائی حکمران جس نے اسی دن واپڈا کے خلاف احتجاج کیا اور آج کل اسلام آباد میں جمہوریت کو بچانے اور دھاندلی سے وجود میں آئی ہوئی حکومت کو(بقول تحریک انصاف) گرانے کی باتیں کر رہی ہیںلیکن واپڈا ، بجلی اور جمہوریت سے زیادہ اہم ان اشیاءکا خاتمہ یا کم ازکم روک تھام کی کوشش کرنا ہے کیونکہ اگر بجلی میسر بھی ہویا پاکستان دنیا کا نمبر ایک جمہوری ملک بن بھی جائے تو بھی یہ انسانوں کی زندگیوں سے موت کے کنویں والا کھیل جاری رہے گا ۔ خیر بات پھر کہیں اور چلی گئی کیونکہ ضمنی باتیں بھی کبھی کبھی ضروری بن جاتی ہیں لیکن اب آتے ہیں اپنے اصلی موضوع کی طرف ۔
 مردان سے سخاکوٹ جانیوالی گاڑی میں سب سے آخری سیٹ پر بیٹھ کر تھوڑا سکون محسوس ہوا کہ چلو کوئی تنگ نہیں کرے گا لیکن اتنے میں ایک سانولا لڑکا جسکی عمر بمشکل بیس سال تھی، آکے میرے ساتھ بیٹھ گیا ۔ میں نے شروع میں اتنا اسکو نوٹس نہیں کیا لیکن جب گاڑی چل پڑی اور پنجاب رجمنٹ سنٹر کے گیٹ پر سے گزر رہی تھی تو اس نے کسی کو فون کرکے صرف یہی کہہ دیا " کہ میں آخری مرتبہ مردان آیا ہوں اور آج کے بعد کبھی بھی مردان نہیں آں گا تم نے میرے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے" اور بس یہ کہنے کے بعد فون ڈس کنیکٹ کردیا ۔ میں نے جب اسکی طرف دیکھا تو بڑا پریشان دکھائی دے رہا تھا اور بار بار اپنے موبائل فون کی سکرین کو دیکھ رہا تھا ۔ اسکی شکل سے یہ لگ رہا تھا کہ لڑکا تعلیم کی طرف زیادہ راغب نہیں لیکن یقین تب آیا جب میری نظر غیر ارادی طور پر اسکے موبائل سکرین پر پڑی ۔ جس نمبر سے وہ بات کررہا تھا اب بھی وہی نمبر اسکے موبائل کی سکرین پر موجود تھا اور اسکے ساتھ کوئی عجیب و غریب قسم کا نام لکھا تھا جس سے یہ بات ظاہر ہورہی تھی کہ صرف وہی جان سکتا ہے کہ یہ کس کا نمبر ہے ۔ خیر میں سوچ رہا تھا کہ شاید کسی کے ڈر سے یہ نام اسی طرح لکھا ہوگالیکن کچھ ہی دیر بعد اس نے شاپنگ بیگ سے ایک کبوتر نکالی اور اسکی چونچ کو بار بار چوم رہا تھا۔ مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب اس نے کبوتر میری طرف کیا (میں چونکہ Window کی طرف بیٹھا ہوا تھا) ۔ میں سمجھا شاید اسکو چھوڑنے کا ارادہ ہے لیکن وہ صرف کبوتر کو ہوا کھلوانے کے لئے میری طرف کیا اور پھر کبوتر کو سینے سے لگایا ۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ نوجوان رونا چاہتا ہے لیکن بھری گاڑی میں وہ یہ سب نہیں کر سکتا تھا ۔ میری منزل پہنچنے تک یہی منظر رہا۔ سفر کے دوران ایک دو بار دوسری طرف سے بھی فون آیا لیکن نوجوان نے یہ کہہ کر کہ میں بعد میں فون کرتا ہوں بند کردیتا تھا ۔ 
  اس ساری کہانی اور موضوع کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہمیں بار بار یہ سنایا ا ور سمجھایا جاتا ہے کہ نوجوان ہماری قوم کا 56 یا 60 فیصد حصہ ہے اور جس قوم کے کے نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو وہ قوم کیا کچھ نہیں کر سکتی ؟ لیکن بندہ عاجز کی سوچ اور نظریہ عموماً مثبت ہوتے ہوئے بھی اکثر منفی چیزوں سے ٹکرایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر اپنے سوچ کے مثبت ہونے پر بھی شک سا ہونے لگتا ہے ۔ اس پوری کہانی سے نتیجہ اور مطلب اخذ کرنا ہر کسی کی ذاتی دلچسپی ، مشاہدات اور تجربات پر منحصر ہے لیکن جو کچھ میں نے محسوس کیا اس کا خلاصہ یہی ہے کہ آخر یہ نوجوان مردان کس سے ملنے آیا تھا ؟ وہ اس سے نہ مل سکی (مجھے یقین ہے کہ وہ لڑکی ہی تھی جس سے وہ ملنے آیا تھا) تو وہ مایوس ہو کر واپس گھر جارہا تھا لیکن ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی اتنے دور آنا اور خطرہ مول لینا(میرے نزدیک) ایک نہایت غیر ذمہ دارانہ فعل اور مستقبل سے بے خبری ہے ۔لیکن اس میںاس نوجوان کا کوئی قصور نہیں کیونکہ جس طرح کے ماحول میںایک بچہ جوان ہوتا ہے ، جس طرح کے لوگوں کے ساتھ اسکا ملاپ ہوتا ہے اور جس طرح بچپن سے اس کی تربیت ہوتی ہے یقینا اسکی آنے والے ساری زندگی کسی نہ کسی طرح اسی تناظر اور اثر کے زیر سایہ گزرے گی ۔
 لیکن 2014ءمیں کبوتروں کا شوق رکھنا مجھے عجیب سا لگا کہ میں دو گھنٹے پہلے ایک ایسے ماحول میں بیٹھا ہوا تھا جہاں پر ملکی و غیر ملکی اور عوامی مسائل سے ہٹ کر کوئی بات ہی نہیں ہوتی ۔ وہاں پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے آنے والے کل کے بارے میں ہر وقت فکر مند رہتے ہیں ، جہاں پرہر کوئی روزانہ کی بنیاد پراپنے آپ کو ملکی و بین الاقوامی مسائل سے باخبر رکھتا ہے اور دو یا تین گھنٹے بعد میں ایک ایسے ماحول میں بیٹھا ہوا تھا جہاں پر ایک نوجوان کی ساری زندگی اور سوچ صرف ایک کبوتر اور ایک فون کال کے گرد گھوم رہی تھی ۔
 اب مجھے یہ بات کھائی جارہی ہے کہ یہ قصور کس کا ہے ؟ اس نوجوان کا ؟ معاشرے کا ؟ والدین کا ؟ یا ہمارے نام نہاد جمہوری رہنماں کا ؟ میں چونکہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں اسی لئے اس کبوتر والے نوجوان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا نہ اس کے بارے میں اپنی کوئی رائے قائم کروں گا ۔ ہاں لیکن ہر نوجوان سے یہ بات کرنے کی ضرور جسارت کروں گا کہ جو بھی کرو اپنے مستقبل کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان ، ملک اور قوم کو بھی یاد رکھناکیونکہ نوجوان ہی ایک قوم ، ملک و سلطنت کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔

The Article was published in Daily "Akhbar-e-Khyber" 10th September 2014
http://akhbarekhyber.com/index.php?Issue=PEW&page=11&date=2014-09-10

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

1 comments:

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.