”متاثرین“ کی اصطلاح سے ہم اتنے مانوس ہوچکے ہیں کہ چاہے کوئی بھی زبان والا ہو، کسی بھی علاقہ سے اس کا تعلق ہو، چاہے تعلیم یافتہ ہو یا غیرتعلیم یافتہ اس اصطلاح سے بخوبی آشنا ہوچکے ہیں ۔ اور یہی وجہ تھی کہ جب بنوں کے بکا خیل کیمپ میں رہنے والے متاثرین جنگ میںجب ایک بچی کی پیدائش ہوئی تو اسکا نام متاثرینہ بی بی رکھا گیا۔ اسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ لفظ ہمارے اعصاب پر کتنا سوار ہوچکا ہے لیکن متاثرین کی بھی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں ۔ مثلاً متاثرین جنگ،متاثرین سیلاب، متاثرین زلزلہ، متاثرین ڈیم وغیرہ ۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ کچھ متاثرین ایسے بھی ہیںجو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متاثر ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو متاثرین نہ تو سمجھتے ہیں اور نہ مانتے ہیں لیکن انکو متاثرین کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ یہاںمیں ان ہی متاثرین میں سے ایک قسم کا ذکر کروں گا جو اپنے آپ کو مانتے تو نہیں لیکن وہ اصل میں بالواسطہ متاثرین سے زیادہ خطرناک اور توجہ کے زیادہ طلبگار ہوتے ہیں۔
”سیاسی متاثرین“ بھی متاثرین کی ایک قسم ہے جو ذہنی طور پر کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی شخصیت سے اتنے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں کہ اپنی سوچ اور رائے کھو بیٹھتے ہیں اور اپنی پارٹی یا قائد کی طرف سے کسی بھی جاری کردہ بیان کی اندھی تقلید کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ متاثرین کی اصطلاح سے تو ہم اس خطے کی حالات کی وجہ سے بخوبی آشنا ہوچکے ہیں لیکن سیاسی متاثرین سے شاید ہم اس انداز میں باخبر نہیں جس طرح ہم متاثرین کے باقی قسموںسے متعلق معلومات و تفصیلات رکھتے ہیں ۔ یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیاسی متاثرین کو ابھی تک کتابوں یا لغت میں انکا جائز مقام نہیں دیا گیا ہے جس کے خلاف وہ قانونی چارہ جوئی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔ سیاسی متاثرین کی اصطلاح کی تعریف ہم کچھ یوں کر سکتے ہیں ©۔ وہ متاثرین جو سیاست میں کسی کی اچھی بات سے اتنے متاثر ہوجائے کہ پھر انکے پسندیدہ سیاستدان کی غلطی یا کمزوری میں بھی انکو خوبیاں ہی خوبیاں ہی نظر آتی ہے ۔ (یہ میری ذاتی رائے ہے لہٰذا اس سے اختلاف ہر کسی کا جمہوری حق ہے) ہمارے ملک کے موجودہ حالات کی وجہ سے سیاسی متاثرین کے تعداد زیادتی نظر آرہی ہے اور خصوصاً جب آزادی و انقلاب مارچوں کا موسم اپنی دوسرے مہینے کی طوالت کی جانب رو بہ سفر ہو چکا ہے تو انہی سیاسی متاثرین کی طرف سے میڈیا کے مختلف ذرائع سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ انکے اپنی کچھ خصوصیات بھی ہوتی ہیں جو انکے سیاسی متاثرین ہونے کو ثابت کرتا ہے۔ان متاثرین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے سیاسی آقا کے بارے میں کوئی غلط بات برداشت نہیں کر سکتے، چاہے آپ لاکھ انکو سمجھانے اور ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن وہ نہ مانیں گے اور نہ مستقبل قریب میں ماننے کا ارادہ رکھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ آپ لاکھ انکو سمجھائیں ، ثبوت پیش کریں لیکن وہ ماننے والے ہیں نہیں تو اسی لئے پہلے ہی سے سن لیں کہ اگر آپ کو یہ متاثرین کہیں بھی، کسی بھی جگہ یا محفل میں بات کرتے یا مباحثہ کرتے ہوئے ملے تو ان سے دور ہی رہئے کیونکہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی عقل کل کے مالک گردانتے ہیں ۔ وہ نہ آپ کی بات کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ آپکے منطق تک انکی سمجھ بوجھ پہنچ سکتی ہے کیونکہ وہ جو اپنے آقاﺅں سے سنتے چلے آرہے ہوتے ہیں وہی انکے لئے حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انکی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ متاثرین بات کا جواب بات سے اور دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے قائل نہیں ۔ بلکہ ان سے اگر کوئی سوال پوچھا جائے اور وہ انکو ناگوار گزرے یا اس سوال میں انکے روحانی و سیاسی پیشوا سے متعلق ناقدانہ رائے شامل ہو تو پھر ان سوالات کے جوابات سوال کرنے والے کے سننے کی سکت پر منحصر ہے کہ ان میں اس قسم کے جوابات سننے کی کتنی اہلیت ہے ۔ کیونکہ اس قسم کے سوالات کے جوابات اکثر و بیشتر غیرسیاسی(یاغیرپارلیمانی) ہوتے ہیں جس کے لئے ان متاثرین ہی کی جیسے کان ہونے چاہئیں۔ان متاثرین کی تیسری بڑی خوبی یہ ہے کہ جہاں بھی یہ موجود رہتے ہیں تو اپنی موجودگی اور شناخت کو کبھی بھی ڈھکی چھپی نہیں رکھتے اور ہمیشہ سے ہی اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ ہر جگہ اور ہر وقت اپنی موجودگی کا احساس ناظرین و سامعین کو دلاناانکا اولین فرض ہے ۔ اسی لئے جہاں بھی آپ کوئی مباحثہ کریں اور اس مباحثہ میں کبھی غلطی سے بھی آپ ان اشخاص کا ذکر کچھ ناقدانہ الفاظ سے کریں جو ان متاثرین کے سیاسی و روحانی پیشوا بن چکے ہیں تو وہ جھٹ سے مباحثہ میں کود جاتے ہیں اور آپ کی خاطر تواضع ایسی ایسی باتوں (الفاظ) سے کر دیتے ہیں کہ آپ اگر نہ بھی جانا چاہے تو اس جگہ سے آپ کو اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑتاہے ۔ کیونکہ ان سیاسی متاثرین سے بات کرنا بیکار ہی نہیں اپنی عزت خاک میں ملانے کے برابربھی ہے ۔ یہ سیاسی متاثرین ہر جگہ پائے جاتے ہیں خصوصاً سوشل میڈیا پر آپ کو انکی بڑی وافر مقدار نظر آئیگی کیونکہ وہاں نہ تو کسی کے گھر کا اتا پتا ہوتا ہے اور نہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کا فائدہ یہ ہے کہ اس قسم کے متاثرین اپنے دل کا غبار خوب نکال سکتے ہیں ۔اور ہاں ایک فائدہ سوشل میڈیا کا یہ بھی ہے کہ وہ ہر کسی کو اپنی دل کی بات سب کے سامنے بھی بول سکتے ہیں اور اکیلے میں بھی ۔ خصوصاً ان صحافیوں کو جو اکثر و بیشتر انکے سیاسی مشاہیر و پیشواﺅں کے خلاف(منطقی طور پر) بولتے رہتے ہیں ۔ان سیاسی متاثرین کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ دوسروں کے لیڈروں، مذہبی پیشواﺅں اور سیاسی رہنماﺅں کے خلاف جو بولنا چاہیںوہ بولنا اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں لیکن عین اسی وقت اگر کوئی ان سے کہے کہ اگر یہی بات خدانخواستہ آپ کے قائد کے خلاف دوسرے لیڈروں کے پیروکار بول دیں تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا ؟ تو وہ جھٹ سے ریڈی میڈ جواب دینے میں کوئی تاخیر نہیں کرتے کہ ہم انکی ایسی کی تیسی کر لیں گے اگر ہمارے قائد کے بارے میں کوئی اس طرح بولے، ہم ان کے 34 دانت توڑ دیں گے(جذبات میں کبھی کبھی دو چار کی تعداد زیادہ بھی ہوجاتی ہے) اگر ہمارے قائد کی شان میں انہوں نے کبھی گستاخی کا سوچا بھی ۔ اسی قسم کے جوابات ہمارے صحافی برادری کو انٹرویوز کے دوران بڑے ملتے ہیں کیونکہ صحافیوں کا ان سیاسی متاثرین سے اکثر واسط پڑتا ہے اور دوسر ے ذرائع سے بھی یہ سیاسی متاثرین ان صحافیوں کی خوب خاطر مدارت کرتے رہتے ہیں ۔یہ متاثرین پاکستان سے زیادہ باہر کی دنیا میں پائے جاتے ہیں اور باہر سے بھی اپنی خصوصیات سے مجبور رویہ اپنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ان متاثرین کا ایک بھرمار ہمیشہ سے برسرپیکار رہا ہے اور ناقدین کی خاطرمدارت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے ۔ آپ نے اگر ان کے مزید خصوصیات کے بارے میں جاننا ہے تو کہیں سے بھی ایک ایسی تحریر اٹھالیں جس میں کسی سیاسی پارٹی کے قائد کو انکی غلط پالیسیوں یا غلط فیصلوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو اور اسی تحریر کو پھر سوشل میڈیا پر بھی شئیر کیا گیا ہو تو اسکے نیچے جو بھی لکھا ہوگا اسی سے آپ ان متاثرین کا مزید تجزیہ کر سکتے ہیں اور انکی مزید خصوصیات کا بغور مطالعہ بھی کرسکتے ہیں ۔ آخر میں انہی متاثرین سے درخواست کروں گا کہ جب بھی کسی کے پر تنقید کرنی ہو تو بے شک کریں لیکن یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیئے کہ وہی تنقید اور اس تنقید کا انداز آپکی شخصیت اور سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ آپکے الفاظ آپکے قائدین اور پارٹی سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں ایک سوچ کو جنم دیتی ہے جو ساری عمر قارئین و سامعین کے دل و دماغ میں آپ اور آپ کے قائدین سے متعلق موجود رہتی ہے تو خدارا ایسے الفاظ سے اجتناب کریں جو آپکو ، آپکی پارٹی کو (جس کو آپ سپورٹ کرتے ہیں) اور آپکے قائدین کو مستقبل میں مزید مشکلات سے دوچار کریں کیونکہ سیاستدانوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا وہ پھر بھی سیاستدان ہی رہتے ہیں ، انکے درمیان مک مکا ہمیشہ جاری رہتا ہے لیکن بے چارے کارکنان ہمیشہ چکی میں پسنے والے وہ دانے ہیں جو اکثر و بیشتر غائب ہو کر اس دار فانی سے کوچ فرمالیتے ہیں ۔وضاحت : میرا کالم اور اس میں لفظ "متاثرین" کسی ایک پارٹی سے متعلق یا ایک پارٹی کے کارکنان سے متعلق نہیں تو برائے مہربانی ایک پارٹی کے کارکنان اپنے آپ سے اس لفظ کو محدود نہ کریں ۔ شکریہ
The Column was published in Daily Akhbar e Khyber 01 10 2014
http://www.akhbarekhyber.com/index.php?Issue=PEW&page=11&date=2014-10-01
0 comments:
Post a Comment