2/16/2016

اليوم الويلنتائن فی الباکستان


اس دنیا میں ہمارا ایک ہی دوست ہے جس کو ہم سنتے بھی ہے اور مانتے بھی، موصوف کا نام بھی بڑا عجیب ہے، عربی سے لگاؤ نہیں لیکن ماں باپ نے نام عربی میں کیا رکھا کہ موصوف کو عربی سے پیار ہی ہوگیا۔ خیر نام میں کیا رکھا ہے اسے چھوڑنا ہی بہتر ہے لیکن کل اس نے ایک ایسا سوال کیا جس پر میں ہنس سکا نہ رو سکا۔ موصوف نے پہلی بار کسی سے ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سنا تو مجھے فون کرکے پوچھا کہ یار یہ ''الیوم الویلنتائن'' کیا بلا ہے؟ دور دراز گاؤں کے رہنے والے ایک سادہ اور بولے نوجوان نے جب یہ سوال کیا تو میں حیران کم اور پریشان زیادہ ہوا۔ میں نے پوچھا خیر تو ہے آج کس موڈ میں یہ سوال کررہے ہو؟ اس نے کہا یار مجھے کسی نے کہا ہے کہ چودہ فروری "الیوم الویلنتائن" ہے تو یہ کیا چیز ہے؟ میں نے جان چھڑاتے ہوئے کہا کہ یار چھوڑو یہ باتیں، مغربی تہوار ہے پاکستان میں اس کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن وہ صاحب نہ مانے اور کہا کہ اس کا مطلب سمجھاؤ۔ خیر میں نے پھر ٹال مٹول سے کام لیا تو صاحب تیش میں آگئے اور فون بند کردیا۔ میں نے فون ملایا تو صاحب اسی طرح ٖغصے میں تھے اور بات کرنے سے پہلے ایک دو گالیاں بھی میرے منہ پہ ماردئیے ۔ میں نے بادل ناخواستہ یہ سب کچھ سہہ لیا اور اسے ویلنٹائن ڈے کے بارے میں بتانا شروع کردیا ۔ میں نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ بھی یہ ''محبت کا دن'' کہلاتا ہے اور اسی دن لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار پھولوں یا تحفے تحائف سے کرتے ہیں ۔ صاحب نے پھر پوچھا کہ یہ ایک دن ہی کیوں؟ میں نے کہا بھئ جس طرح ہر تہوار کے لئے خاص دن مقرر ہے تو اس طرح محبت کے لئے بھی یہ دن خاص کیا گیا ہے، جس نے بھی کیا ہے مقصد صاف ظاہر ہے کہ چاہے کوئی بھی ہو محبت کا اظہار کرلو۔ خیر اس سے جان کسی طریقے سے چھڑایا تو ٹی وی لگایا جس پر بریکنگ نیوز کے ساتھ ویلنٹائن ڈے نہ منانے کے بارے میں ہمارے مملکت خداداد کے اقوال چل رہے تھے اور "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کے بااختیار صدرمملکت نے حکم دیا تھا کہ ویلنٹائن ڈے چونکہ مغربی تہوار ہے اس لئے مسلمان اس کو منانے سے گریز کریں۔

دوسری طرف خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے بادشاہ(ضلعی ناظم) کی طرف سے بھی شاہی فرمان جاری ہوچکا تھا کہ ان لوگوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے جو ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔ جناب وزیرداخلہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں کوئی بھی محبت کا دن نہ منائے اور ہمارے مذہبی سیاسی پیشوا تو بار بار کہہ چکے ہیں کہ "من تشبه بقومٍ فهو منه" یعنی جس کسی نے کسی قوم کے طرززندگی کو اپنایا وہ اسی قوم میں سے ہے۔ ایسے میں جناب مفتی نعیم (مہتمم جامعہ بنوریہ کراچی) اور ماروی سرمد (صحافی) کا مکالمہ یاد آیا کہ محترمہ ماروی سرمد نے جناب مفتی نعیم صاحب کو ویلنٹائن مبارک اور سرخ غبارے بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ ایسے میں اگر ہمارے گاؤں والا دوست (جس کو عربی سے صرف اسلئے لگاؤ ہے کہ اس کا نام عربی میں ہے) اگر سوالات اٹھائے تو ان کا حق بنتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟کیا ویلنٹائن منانے کی ضرورت ہے؟ منانے سے پہلے یہ سوچنا چاہئیے کہ ہمارے بڑے بڑے صحافی حضرات اس موضوع پر ایک ایک گھنٹے تک مہمانوں کو بٹھا کر ان کو آپس میں لڑاتے کیوں ہیں؟ کیا پاکستان میں تمام مسائل ختم ہوگئے ہیں اور صرف یہی مسئلہ رہ گیا ہے کہ پاکستانیوں کو ویلنٹائن ڈے منانا چاہئیے یا نہیں؟ بھئی ذرا سوچ لیں کتنے فیصد پاکستانی بچے سکول جاتے ہیں؟ کتنے فیصد نوجوانوں کو روزگار مل رہا ہے؟ اب تک کتنے پاکستانی (مرد وخواتین) دہشتگردی کا شکار ہوکر زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں؟ یہ کبھی ہم نے سوچا بھی ہے یا نہیں؟ کیا پاکستانی خواتین و حضرات صرف یہی سوچ رہے ہیں کہ ہاں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانا چاہئیے اور دوسرا ٹولہ کہتا نہیں یہ کفری رسوم ہیں اسے ترک کردینا چاہئیے۔

اب آتے ہیں تھوڑا اس طرف جہاں کوئی نظرڈالنے کی ہمت نہیں کرتا۔ پاکستان میں (شاید ایک سازش کے تحت) تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قبائلی علاقہ جات اور خیبرپختونخوا میں سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا، 16 دسمبر 2014ء کو ہم ابھی بھولے نہیں ہے، 20 جنوری 2016ء بھی سب کو یاد ہوگا جب چارسدہ میں باچاخان یونیورسٹی پر دہشتگردوں نے حملہ کیا اور یونیورسٹی کو غیرمعینہ مدت کے لئے بند کردیا گیا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ کراچی میں ایک گھنٹے میں تین جگہوں پر(جس میں ایک پرائیویٹ سکول بھی شامل ہے) دستی بم پھینکے گئے۔ اساتذہ کو قلم کے ساتھ ساتھ بندوق رکھنے کے تجاویز پیش کئے جارہے ہیں، قبائلی بچے تو شاید یہ حق نہیں رکھتے کہ تعلیم حاصل کرسکے کیونکہ ان کو ابھی اپنے گھروں کے بارے میں معلوم ہی نہیں۔ خیموں اور کیمپوں میں پرورش پارہے ہیں، ان کا کوئی مسیحا ہے؟ ملک میں غربت روز بروز بڑھ رہی ہے، خواتین میں تعلیم کی شرح گررہی ہے، اندرون سندھ جائے تو وہاں تعلیم نامی چیز آپ کو نظر نہیں آئے گی، تھر میں بچے غذائی قلت اور والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے مررہے ہیں۔ اسی اثنا ایک اور خبر آئی کہ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے سابق امیر و سابق سینیٹر جناب پروفیسرابراہیم صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیرصاحب کے قاتل ممتازقادری کو فوراً رہا کیا جائے کیونکہ اگر اسکو پھانسی دی گئی تو ملک میں حالات انتہائی کشیدہ ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں ہم ویلنٹائن کے بارے میں اگر سوچیں گے، ان پر بڑے بڑے مباحثے کریں گے تو یہ کسی بھی طور پر ایک زندہ قوم کی نشانی نہیں۔

محبت بانٹنا گناہ نہیں نہ ہی ویلنٹائن کا مقصد لڑکے اور لڑکیوں کا باہر جاکر ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار کرنا ہے۔ محبت تو کسی سے بھی ہوسکتی ہے، کوئی پہاڑوں سے محبت کرتا ہے تو کوئی جانوروں سے، کوئی اپنے ماں باپ سے تو کوئی اپنے بہن بھائیوں سے، محبت کرنا اور بانٹنا کسی بھی مذہب میں گناہ کبیرہ تو کیا گناہ صغیرہ بھی نہیں تو پھر کیوں ہم اس بحث میں پڑ کر وقت ضائع کررہے ہیں۔ میرے عزیز ہم وطنوں پہلے "باکستان" کو پاکستان تو بناؤ پھر "الیوم الویلنتائن" کے بارے میں سوچو۔

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

2 comments:

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.