3/31/2017

آپ شکل سے پشتون لگتے ہیں

کراچی میں بسنے والے پشتون دعویٰ کرتے ہیں کہ اعدادوشمار کے لحاظ سے اس شہر میں دنیا کے کسی بھی شہر سے زیادہ پشتون رہ رہے ہیں جو زیادہ تر محنت مزدوری کی غرض سے خیبرپختونخوا، بلوچستان یا فاٹا کے علاقوں سے ہجرت کرکے کئی دہائیوں سے یہاں آباد ہیں۔غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہاں پر 40یا 50 لاکھ سے زیادہ پشتون آباد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کئی کئی بستیاں انہی پشتونوں نے ہی آباد کی ہوئی ہیں۔
21 مارچ 2017ء کو پنجاب یونیورسٹی میں پیش آنیوالے واقعے کے خلاف "اتن" کی صورت میں پشتون نوجوانوں نے پریس کلب کے سامنے 26 مارچ کو احتجاج کیا جس میں تقریباً تمام ہی سیاسی پارٹیوں کے کارکنان (جو پشتون ہیں) نے شرکت کی۔ عوامی نیشنل پارٹی،پختونخوا ملی عوامی پارٹی، پاکستان پیپلزپارٹی اور پاک سرزمین پارٹی کے کارکنان کے علاوہ تاجراتحاد کے نمائندگان نے بھی اس اتن میں حصہ لیا۔ اس تقریب منتظمین کے مطابق یہ ایک غیرسیاسی تقریب تھی جس کا مقصد پاکستان سمیت دنیا کو صرف یہی پیغام دینا تھا کہ پشتون امن پسند لوگ ہیں، اس ملک میں رہنے والے دوسری اقوام کی طرح وہ بھی اس پاکستان کو دل و جان سے چاہتے ہیں اور اس کی ترقی میں اپنا کردار شروع ہی سے ادا کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ان کے ثقافت پر انگلی اٹھائے تو وہ مارپیٹ کے بغیر اپنے روایتی رقص "اتن" کے ذریعے احتجاج کرتے رہیں گے۔


اتن کو اگر پشتونوں کی قبائلی شناخت، خوشی کے اظہار اور احتجاج کی علامت کے طور پر پشتون سماج کا لازمی حصہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ یہ روایت صدیوں پرانی ہے۔ پشتونوں نے اگر ماضی میں جنگیں بھی لڑی ہیں تو اسی "اتن" کے ذریعے اپنے سپاہیوں میں جوش و ولولہ پیدا کیا ہے۔ اور آج بھی خوشی کے موقع پر کئی علاقوں میں اتن ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک صحافی ہونے کے ناطے 26مارچ کو کراچی پریس کلب کے سامنے ہونیوالے انوکھے احتجاج کی کوریج کے لئے پہنچے تو ہماری گاڑی کو سندھ پولیس کے جوانوں نے روکا۔ ہم نے کہا "صحافی ہے کوریج کے لئے جارہے ہیں"۔ ہنس مکھ اور بااخلاق پولیس جوان نے نہایت ہی احترام کے ساتھ جواب دیا "آپ شکل سے پشتون لگ رہے ہیں، برائے مہربانی گاڑی ذرا دور کھڑی کرے اور آگے پیدل جائیے گا"۔ (اس جملے کا مطلب قطعی طور پر تعصب نہیں انگریزی میں کہے تو It is in a lighter mood
اب اس جملے کا کوئی کچھ بھی مطلب نکالے ہم نے تو اس کو لائیٹر موڈ میں ہی لیا اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے گاڑی دور ہی کھڑی کرلی۔ کیمرہ مائیک اٹھایا اور پریس کلب کے سامنے پہنچ گئے۔ وہاں پر پہنچ کر وہی سب کچھ دیکھا جو ہم عموماً ایک احتجاج میں دیکھتے ہیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدلتا گیا۔
ایک گاڑی آئی جس میں بڑے بڑے لاؤڈسپیکرز لگے ہوئے تھے۔ اس پروگرام کے منتظم نے ہاتھ میں مائیک اٹھایا ہوا تھا اور سب کو ایک دائرہ بنانے کی درخواست کرلی۔ پھر کیا تھا احتجاج ڈھول کی تاپ اور موسیقی کے سُر و لے میں تبدیل ہوگیا۔ ہر کوئی چاہ رہا تھا کہ وہ اس احتجاجی اتن میں حصہ لے لیکن لوگوں کی تعداد اتنی تھی کہ سب کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا۔ یہ خوبصورت احتجاج تقریباً دو گھنٹے جاری رہا جس میں اللہ کے فضل و کرم سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ سیکیورٹی کے لئے پولیس کے جوان بھی کھڑے تھے لیکن اس احتجاج کا حسین منظر تب بن گیا جب نظریاتی اختلاف رکھنے والے، سروں پر کئی رنگ کی ٹوپیاں رکھے، گلے میں کئی رنگوں کے گلوبند پہنے ہوئے بوڑھے و جوان اپنی ٹانگوں اور ہاتھوں کی حرکت ڈھول کی تھاپ کے مطابق ڈھالنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ سب نے اپنی نظریاتی اختلاف و سیاسی نظریات ایک طرف رکھ دئیے تھے اور موسیقی کے دھنوں میں پورے دو گھنٹے تک مدہوش رہے۔
اس احتجاج میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ سول سوسائٹی کے اراکین بھی شریک تھے جس کو نہ تو اتن کرنے کا سلیقہ معلوم تھا اور شاید نہ ہی وہ تاریخی طور پر اس خوبصورت مظاہرے سے واقف تھے۔ سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ ایک بندہ جس سے میں ملا وہ تھا ڈاکٹرشکیل اوج صاحب کے فرزند۔ اس نے بھی ایک بینر اٹھایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا"پشتون ثقافت زندہ باد"۔ میرے نزدیک یہی ایک پرامن ملک کی نشانی ہے کہ اگر ایک کی ثقافت پر حملہ ہو تو وہ ایک پر نہیں سب پر حملہ سمجھ کر اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہئیے۔
اسم ملک میں مجھ سمیت احتجاجی مظاہرے سب نے دیکھے ہوں گے لیکن یہ وہ طریقہ تھا جس میں نہ تو سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور نہ ہی کسی ایمبولینس کا راستہ روکا گیا، نہ کسی خاتون یا بوڑھے کے ساتھ بدتمیزی کی گئی نہ ہی پولیس کو اپنی طاقت آزمانے کی ضرورت پیش آئی۔شاید اس ملک کو اس قسم کے ہی احتجاج کی ضرورت ہے کیونکہ پرامن احتجاج سب پاکستانیوں کا آئینی حق ہے۔
بہت سے لوگ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے اس تحریر کا نام نسلی تعصب کی بنیاد پر رکھا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ مجھے اپنے پشتون ہونے پر فخر ہے۔ اسی فخر نے مجھے ایک ایسے بندھن میں جوڑا ہے جس کو سب لوگ (یا شاید کم لوگ) "پشتونولی" کے نام سے جانتے ہیں۔ یہی وہ ضابطہ اخلاق ہے جس کے رنگ میں رنگ ہوکر ہم نے آنکھیں کھولی، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، ماں باپ کی ہر بات کا جواب "ہاں" میں دینا اور یہاں تک کہ سر و داڑھی میں سفید بال آنے کے باوجود ماں باپ کے سامنے جھک کر بات کرنے کا سلیقہ سیکھا۔
اگر ہم شکل سے پشتون لگ رہے ہیں تو کراچی والوں نے بھی اس رنگ کو بخوشی قبول کیا ہے۔ صرف پشتون ہی نہیں اس شہر نے ہر اس انسان کو گود لیا ہے جو پاکستانی ہے، جو اس ملک کا شہری ہے، جو اس ملک میں کہیں بھی جانے کا حق رکھتا ہے اور فخر ہے ایسے شہر پر بھی جو کسی ایک کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔

Unknown

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.