پاکستان کا ایک حصہ وہ سات
ایجنسیز اور چھ ایف آرز (فرنٹئیر ریجنز) بھی ہے جنہیں قبایلی علاقہ جات یا فاٹا (وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات) کہا جاتا ہے، جہاں ایک پولیٹیکل ایجنٹ،
اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اور تحصیلدار بادشاہ بن کر لوگوں پر مسلط کئے جاتے ہیں۔ یہاں
پر بسنے والے لوگوں پر پاکستان کا آئین لاگو نہیں، یہاں پر بسنے والوں کو ہائی
کورٹ یا سپریم کورٹ جانے کا حق حاصل نہیں، یہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھے
ہوئے لوگ ہیں۔ یہاں پر رہنے والوں کو اپیل، دلیل اور وکیل کا کوئی حق نہیں۔ ایک
حکم پر مہینوں تو کیا سالوں تک لوگوں کو قید و بند میں رکھا جاسکتا ہے۔ آج کل
قبائلی اصلاحاتی کمیٹی کے رپورٹ کے حوالے سے بڑی خبریں زیرگردش ہیں۔ فاٹا کے عوام
کبھی پشاور تو کبھی اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔
میں اس رپورٹ پر بات نہیں کرنا چاہتا جس ایک سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعد بھی عملدرآمد نظر نہیں آرہا لیکن یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قبائلی عوام میں اب وہ شعور جاگ چکا ہے جو ان کو ایف سی آر جیسے کالے قانون سے چھٹکارا دلائے گی۔
میں اس رپورٹ پر بات نہیں کرنا چاہتا جس ایک سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعد بھی عملدرآمد نظر نہیں آرہا لیکن یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قبائلی عوام میں اب وہ شعور جاگ چکا ہے جو ان کو ایف سی آر جیسے کالے قانون سے چھٹکارا دلائے گی۔
اسلام آباد اور کراچی میں ہونے
والے قبائلی طلباء و عمائدین کے کئے مظاہروں میں بحیثیت صحافی شرکت کرچکا
ہوں لیکن پاکستان کی 70 ویں یوم آزادی سے کچھ دن قبل اسلام اباد میں ہونیوالے
مظاہرے کے کچھ تلخ و شیرین یادیں اب بھی ذہن میں نقش ہیں جو شاید بھولنے کے قابل
نہیں۔
11 اگست 2017ء کو قبائلی طلبا
کے فورم (فاٹا سٹوڈنٹس فورم) کے زیراہتمام فاٹا اصلاحات میں تاخیر کے خلاف اسلام
آباد پریس کلب کے سامنے لوگ جمع ہورہے تھے، جس میں طلباء کے علاوہ سیاسی و سماجی
رہنما اور وکلاء اتحاد کے کئی مشران موجود تھے۔ اس
احتجاج میں پولیس اور اسلام آباد کے انتظامیہ نے روڑے اٹھکائے کیونکہ وہ مظاہرین
کو ڈی چوک سے منع کررہے تھے ۔ جیسے ہی مظاہرین سیونتھ ایونیو پہنچے، پولیس کی ایک
بڑی تعداد نے مزاحمت شروع کی ۔ ہم پیچھے سے اس احتجاج کی کوریج کررہے تھے اور
سیونتھ ایونیو پر احتجاجی مظاہرے سے آگے چلے گئے جہاں پر پولیس نے ان کو روک
لیا۔ دھرنا شروع ہوگیا، طلباء، سیاسی و سماجی رہنماؤں نے وہی پر احتجاج کا
فیصلہ کرلیا۔ اس وقت تک کوئی پارلیمانی ممبر موجود نہیں تھا، جیسے ہی مظاہرین کی
گاڑی شاہراہ پر روک دی گئی، شاہ جی گل آفریدی دور سے ہی نمودار ہوگئے اور گاڑی پر
چڑھ گئے۔ لیکن اس سے پہلے عوامی ورکرزپارٹی کی عصمت شاہجہاں اور عوامی نیشنل پارٹی
کی بشرٰی گوہر مظاہرین کے ساتھ شروع سے ہی موجود تھیں۔ ان کے حوصلے کو سرخ سلام۔
مظاہرہ شروع ہوا، تقاریر کا
سلسلہ رواں دواں تھا کہ سٹیٹ لائف کی عمارت سے ایک خوبرو نوجوان نمودار ہوا۔ آتے
ہی تمام مظاہرین پر ایک تیز نظر دوڑائی اور میرے ساتھ آکے رک گیا۔ جناب کا تعلق
اسلام آباد سے تھا اور میرے قریب آکر پوچھا" یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟"
میں نے کہا یہ فاٹا کے عوام و سیاسی لوگ ہیں جو ایف سی آر کے خلاف احتجاج کررہے
ہیں۔ موصوف نے پھر سوال کیا "یہ فاٹا کیا ہے؟" میں نے حیرانگی سے ان کی
طرف دیکھا لیکن جواب دے دیا کہ بھئی فاٹا وہ علاقہ ہے جو برٹش راج سے ایک آزاد
قبائلی علاقہ کہلایا جاتا ہے، وہاں پر ایک قانون ہے ایف سی آر جس کے خلاف یہ لوگ
احتجاج کررہے ہیں۔ موصوف نے پھر سوال کیا کہ یار فاٹا کا نام پہلی بار سن رہا ہوں،
ہاں البتہ "پانا" کا نام سنا ہے اور انہیں کسی نے بتایا تھا کہ یہ
بلوچستان کا کوئی علاقہ ہے۔ میں نے کہا بھئی پانا کے بارے میں معلوم نہیں، ہاں
البتہ پاٹا بھی ایک نیم قبائلی علاقہ ہے ۔
اس کے بعد میں نے ان سے دور
جانے میں ہی عافیت جانی لیکن 11 اگست سے اب تک یہی سوچ رہا ہوں کہ اسلام آباد میں
بیٹھے لوگ فاٹا کے بارے میں کیا کچھ جانتے ہیں، اس ایک بندے کی سوچ و معلومات سے
اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ اگر دیکھا
جائے تو اور بھی وضاحت مل سکتی ہے کہ جو لوگ اسلام آباد، کراچی و لاہور میں بیٹھ
کر فاٹا اصلاحات اور فاٹا کے مستقبل کے بارے میں تجزیے کررہے ہیں ان میں سے اکثر
سرکاری خرچ پر تو فاٹا کی سیر کرلیتے ہیں، وہاں پر موجود حالات کو کسی اور کی منشا
کے مطابق لوگوں کے سامنے تو لے آتے ہیں لیکن وہاں پر بسنے والے لوگ کیا کہتے ہیں،
کتنی مصیبتیں برداشت کررہے ہیں، یہ شاید ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ دوسری
اور سب سے اہم بات جس سے ہماری جمہوری رویوں کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
وہ یہ ہے کہ فاٹا کے مستقبل کے بارے جو کمیٹی بنائی گئی تھی ان میں سے کسی ایک کا
بھی تعلق فاٹا سے نہیں۔ نہ تو سرتاج عزیز صاحب، نہ ہی گورنر خیبرپختونخوا اقبال
ظفرجھگڑا اور نہ ہی زاہد حامد صاحب کو معلوم ہوگا کہ وہاں پر بسنے والے لوگوں کا
اصل مسئلہ ہے کیا؟
وہاں جا کر، فوٹو سیشن کروا کر اور ایک لمبا رپورٹ کابینہ کے سامنے پیش کرکے شاید وہ سمجھ بیٹھے ہوں گے کہ انہوں
نے اپنا فرض پورا کرلیا لیکن اس ملک میں رہنے والے قبائلی عوام کو اگر اس بار
پاکستان کے دوسرے شہریوں کے برابر حقوق نہیں دئیے گئے تو موجودہ نسل اور آئندہ نسل
کبھی بھی ان کو معاف نہیں کرے گی۔
جیسے اسلام آباد کے عام لوگ اس
سے بھی باخبر نہیں کہ فاٹا کوئی علاقہ ہے جہاں آئین پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں،
شاید اسی حد تک کمیٹی و حکومتی لوگ بھی سنجیدہ ہے کہ قبائلی عوام کے ماتھے سے اس
لفظ "قبائل" کا خاتمہ کیا جائے اور ان کو انسانوں کی طرح زندگی جینے کا
حق دلایا جائے۔
موجودہ صورتحال میں سب سے بہتر
حل اگر کوئی ہے تو وہ صرف اور صرف کالے قانون "ایف سی آر" کا خاتمہ ہے،
مزید اصلاحات یا خیبرپختونخوا میں انضمام طویل المدتی منصوبے کے طور پر لیا جاسکتا
ہے ۔ عوامی رائے کا احترام، عوام کو بنیادی سہولتیں دینا اور ان کو جائز حقوق
دلانا کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے جو قبائلی عوام کے معاملے میں شاید کسی
بھی جمہوری حکومت نے پوری کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔
0 comments:
Post a Comment