2/16/2018

عاصمه جهانگیر، من گھڑت روایات کی بت شکن

عاصمہ جہانگیر کو جب بھی سنا، جہاں بھی سنا، بیسویں و اکیسویں صدی میں ان سے زیادہ جرات مند و بہادر شاید ہی کسی نے دیکھی ہوگی کیونکہ مارشل لاء کے خلاف ہو یا انسانی حقوق کے حق میں، ان سے توانا و بہادر آواز کوئی نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا جنازہ بھی دوسروں سے مختلف تھا۔ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں منگل 13 فروری کو ان کا نماز جنازہ جماعت اسلامی کے بانی امیر سیدابوالاعلٰی مودودی کے اس فرزند نے ادا کی جو جماعت اسلامی کا سب سے بڑا ناقد ہے۔ عاصمہ جہانگیر جس طرح زندگی میں روایات کی بت شکن تھی اسی طرح ان کے جنازے نے بھی تمام مشرقی روایات کے بت توڑدئیے۔ پہلی صف میں منیزہ جہانگیر (عاصمہ جہانگیر کی بیٹی و صحافی) اور دوسری عورتیں موجود تھیں جو شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دیکھا گیا ہو۔

          زندگی میں فرسودہ روایات کی بت شکن عاصمہ جہانگیر کے جنازے کو کندھا بھی عورتوں نے دیا جو کہ ان تمام لوگوں کے لئے ایک جواب تھا جو عاصمہ جہانگیر کی زندگی اور ان کی کوششوں پر تنقید کررہے تھے یا کررہے ہیں۔ انہوں نے تمام زندگی مظلوم طبقے، خصوصاً عورتوں، اقلیتوں کے حقوق، آئین کی پاسداری اور جمہوریت کو مضبوط کرنے میں صرف کی۔ ایک مثبت پہلو یہ بھی تھا کہ ان کے نماز جنازہ میں ملک کے ہر حصے سے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور ثابت کیا کہ عاصمہ جہانگیر تمام مظلوموں کی آواز تھی۔

گو کہ ملکی سطح پر  سوشل میڈیا عاصمہ جہانگیر کی موت پر دو حصوں میں تقسیم نظر آئی ، دانشور، باعلم اور انسان پرست طبقے نے نہ صرف ان کو خراج تحسین پیش کیا بلکہ جواباً کچھ غلط فہمیوں کا کسی حد تک ازالہ بھی کیا ،جو کہ خاص کر نوخیز نوجوانوں اور کچھ تنگ  و مخصوص نظر افراد میں عاصمہ جہانگیر کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ کئی دوستوں نے ان کو ملک ، اداروں کی مخالف تو کچھ نے بھارت نواز قرار دیا۔ کئی فیس بک کے دانشوران یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے کشمیریوں کے حقوق کے لئے کبھی بھی آواز بلند نہیں کی جو کہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں ان الزامات کی صفائی ہرگز مقصد نہیں مگر ایک تجویز  ان لوگوں کے لئے ضرور عرض ہے کہ قرآن پاک کے سورہ الحجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہے " ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (6)

ترجمہ: "اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔"گزارش یہی ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی خبر، تصویر یا پوسٹ شئیر کرنے سے پہلے یہ تصدیق اور تسلی کرلیں کہ اس کے پیچھے کہانی و مقصد کیا ہے کیونکہ منفی باتیں مثبت کے مقابلے میں بہت جلدی پھیل جاتی ہیں۔عاصمہ جہانگیر کی زندگی پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو بچپن سے ہی اصول پرست اور جمہوریت پسند نظر آئی۔ ہر اس جگہ نظر آئی جہاں پر شاید اس کے بعد کوئی جاتے ہوئے 100 مرتبہ سوچے گا یا سوچے گی۔ انسانی حقوق کی علمبردار اور جمہوری نظام کی مضبوطی کا خواب دیکھنے والی یہ توانا آواز دنیا چھوڑ کر ابدی نیند سوگئی لیکن اس خطے میں بسنے والے تمام انسانوں کو اپنی زندگی اور موت کے ذریعے یہ پیغام چھوڑ کر گئی ہے کہ زندگی سب نے جینی ہے، موت بھی ایک دن آنی ہے لیکن  اصولوں کو کبھی نہ چھوڑو، انسان رہو انسانیت اور انسانی اقدار کی قدر کرو، مظلوم کا ساتھ دو اور ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہی اپنا حق مانگا جاسکتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر کی موت بھی تمام روایات سے ہٹ کر تھی اور یہی شاید ان کی آخری خواہش رہی ہوگی کہ موت ہو تو ایسی کہ زندگی میں کی گئی تمام کوششوں کا نتیجہ اس میں ضرور نظر آئے۔یہی ایک اصول پسند، اصول پرست اور روایات کی بت شکن زندگی کا حاصل ہے کہ ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں پدرانہ روایات سے بغاوت موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، پھر بھی 66 سالہ زندگی میں ہر موقع و ہر موڑ پر وہ ڈٹی رہی اور ایسی ڈٹی رہی کہ بڑے سے بڑے و طاقتور حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جمہوری و آئینی حقوق مانگتی رہی۔وہ ایک عاصمہ جہانگیر تھی جو چلی گئی اور شاید وہ ایک ہی تھی جو یہ سب کچھ تن تنہا کرسکتی تھی۔ وہ اپنے حصے کا کام تو کرگئی مگر ہم سب پر ایک بھاری ذمہ داری بھی چھوڑ کر چلی گئی کہ اگر رہنا ہے تو اصولوں پر ڈٹے رہو کیونکہ موت کا ایک ہی دن متعین ہے، مرو تو دوست تو دوست  دشمن بھی یہی کہتے رہے کہ کاش ہم بھی ایسے زندگی گزارلیتے اور ایسا جنازہ نصیب ہوتا۔ان تمام لوگوں کے لئے آخر میں خوشحال خان خٹک کا یہ شعر عرض کروں گا جو عاصمہ جہانگیر کے کردار یا کوششوں پر انکی زندگی میں تو  تنقید کے قابل نہیں تھے مگر اب انکی رحلت کے بعد کردارکشی پر اتر آئے ہیں۔شیخ دې نمونځ اودس کړي زه به ډکې پيالۍ اخلم
هر سړے پېدا دے خپل خپل کار لره کنهترجمہ: "شیخ کو چاہئیے کہ وہ نماز پڑھتا رہے اور روزہ رکھا کرے، میں تو جام لیتا رہوں گا، کیونکہ ہر کوئی پیدا ہوا ہے اپنے اپنے کاموں کے لئے"

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.