4/05/2015

قومی کرکٹ ٹیم کا نیا کپتان

پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک مرتبہ پھر تجربوں کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ایک روزہ کرکٹ ٹیم کے لئے نئے کپتان اور نائب کپتان کا اعلان کردیا جسکے مطابق اب تک 14ایک روزہ کرکٹ مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑی اظہرعلی کو قومی ٹیم کا نیا سپہ سالار مقررکیا گیا ہے ۔ دوسری جانب لمبے عرصے سے خالی پڑی کرسی پر بھی آخر کار انتخاب ہوہی گیا اور ورلڈ کپ کے مقابلوں میں دھوکہ نہ دینے والے کھلاڑی(سرفراز احمد) کو قومی کرکٹ ٹیم کا نائب کپتان مقرر کیا گیا ہے ۔ 
پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی اظہرعلی کی عمر اس وقت 30 سال سے اوپر ہے جبکہ28سالہ نائب کپتان سرفراز احمدکا تعلق پاکستان کے بڑے شہر کراچی سے ہے ۔ قومی کرکٹ ٹیم کے نئے کپتان نے پہلا ایک روزہ میچ 30 مئی 2011ء کو آئرلینڈ کے خلاف کھیلا تھا جس میں انہوں نے 39رنز بنائے جبکہ آخری ایک روزہ میچ 3جنوری2013ء کو کلکتہ میں بھارت کے خلاف کھیلا تھا جس میں انہوں نے صرف دو رنز بنا ئے تھے۔ ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے عمررسیدہ چئیرمین شہریار خان کے اعلان سے پہلے بھی میڈیا میں اظہرعلی کانام گردش کررہا تھا کہ ان کو قومی کرکٹ ٹیم کے ایک روزہ مقابلوں کے لئے کپتان اور سرفراز احمد کو نائب کپتان مقرر کیا گیا ہے لیکن گذشتہ روز شہریار خان نے باقاعدہ طور پر ان کے ناموں کا اعلان کردیا ۔ ملکی سیاست کی طرح ہر ادارے کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ فیصلہ سے پہلے ہی فیصلے منظرعام پر آجاتے ہیں اور ایسے نام منتخب کئے جاتے ہیں جن کی عمریں اکثر گذرچکی ہوتی ہے اور اسکی زندہ مثال مصباح الحق اور سعید اجمل ہمارے سامنے ہیں ۔ مصباح الحق کو باقاعدہ طور پر انضمام الحق کے ریٹائرمنٹ کے بعد سامنے لایا گیا اور اس وقت انکی عمر تیس سال سے اوپر تھی۔ اسی طرح جادوئی سپنرسعیداجمل نے بھی اپنا پہلا ایک روزہ میچ تقریباً تیس سال کی عمر میں کھیلا۔
اظہر علی کے کیرئیر پر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو ان کے ایک روزہ مقابلوں کا سفر لمبا نہیں لیکن یہ کہنا بھی قبل از وقت ہوگا کہ یہ فیصلہ غلط یا کمزور ہے کیونکہ جنوبی افریقہ کے سابقہ اور سب سے کامیاب کپتان گریم سمتھ کو بھی صرف 27 ایک روزہ مقابلے کھیلنے کے بعد کپتانی کی ذمہ داری دی گئی تھی جو انہوں نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ نبھائی، لیکن پاکستان اور جنوبی افریقہ کے کرکٹ ٹیموں، کھلاڑیوں اور بورڈز کے درمیان فرق کو بھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ اظہرعلی کو ایسے صورتحال میں کپتانی سونپی جارہی ہے جب کہ دو سب سے سینئیر کھلاڑی مصباح الحق اور شاہد آفریدی ایک روزہ مقابلوں کو خیرباد کہہ چکے ہیں ۔ اب چیلنج یہ ہے کہ کس طرح آنیوالے مقابلوں میں اظہرعلی ایک بکھرے، فٹنس مسائل سے دوچارٹیم ر اور جونئیر ہوتے ہوئے ٹیم میں شامل سینئیر کھلاڑیوں جیسے عمر گل،یونس خان اور محمدحفیظ وغیرہ کو ساتھ لے کر کس طرح بنگلہ دیش کے آنے والے دورے میں اپنی کارکردگی دکھاتے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے کپتان کو ٹیم میں موجود گروہ بندی کو بھی ذہن نشین کرنی ہوگی کیونکہ اسی گروہ بندی نے پاکستان کو کبھی بھی اچھی کارکردگی دکھانے کا موقع نہیں دیا ۔ 
اس کے علاوہ پاکستانی ٹیم کو سب سے بڑا مسئلہ اوپننگ جوڑی کا ہے جو نہ تو ورلڈ کپ میں کامیاب نظر آئی اور نہ اس سے پہلے۔ سعید انور اور عامر سہیل کے بعد پاکستان کو کوئی خاطرخواہ کارکردگی دکھانے والی اوپننگ جوڑی نہیں ملی جس کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم انتظامیہ سینکڑوں تجربات کرچکا ہے اور ان میں زیادہ تر ناکام ہی رہے ہیں ۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر تجربہ کرنے جارہا ہے اور دو نئے کھلاڑیوں کو اہم ذمہ داریاں دی جارہی ہے ۔ دونوں کا پہلا امتحان بنگلہ دیش کے خلاف آنیوالی سیریز ہے ۔ اگر وہ کچھ خاطرخواہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوئے تو شاید آگے بھی وہ کپتان رہے لیکن جس طرح پاکستان کرکٹ بورڈ کی عادت رہی ہے کہ جو اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے انہیں ہٹادیا جاتا ہے ۔ اگرچہ دوسرے ممالک میں اس طرح نہیں ہورہا اور خصوصاً آسٹریلیا کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو وہ اپنے کھلاڑیوں کو بہت وقت دیتے ہیں اور اگر وہ ایک سیریز میں ناکام بھی ہو تو مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو ٹیم میں مستقل جگہ دے کر اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا بھرپور موقع دیا جاتا ہے جس سے ہمارے کرکٹ بورڈ کو بھی کچھ سیکھنا ہوگا اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں نئے کھلاڑیوں کو وقت دینا ہوگا تاکہ وہ اس بکھرے ہوئے ٹیم کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کرسکے اور پاکستان کو کرکٹ کی دنیا میں کھویا ہوا مقام دلاسکے ۔
اظہرعلی پر تنقید اپنی جگہ لیکن اگر ایک فیصلہ ہوچکا ہے (اچھا یا برا ) اب پورے پاکستان کو اس کی حمایت کرنی ہوگی ۔ خصوصاً میڈیا کو اس سلسلے میں اپنا کردار مثبت کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کے شائقین کو اچھی کرکٹ اور اچھی ٹیم دیکھنے کو مل سکے ۔اور کرکٹ کے شائقین ایک مرتبہ پھر اپنے ٹیم کے لئے نعرے بلند کرسکے ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لئے اچھا موقع یہ بھی ہے کہ ملک میں حالات اچھے ہورہے ہیں اور ویران میدانوں کو دوبارہ آباد بھی کیا جاسکتا ہے جس کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوگے ۔ اسی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ نئے کھلاڑیوں،نئے کپتان، نئی سلیکشن کمیٹی اور نئے چیف سلیکٹر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایک مرتبہ پھر شائقین کرکٹ کو براہ راست کرکٹ دیکھنے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں ۔

آخر میں پوری قوم سے یہی التجا کہ کرکٹ ٹیم پر تنقید کرنی ہے تو کرلے لیکن تنقید اور تنقیص میں فرق کو بھی واضح کرنا ہوگا، صرف تنقیص نہیں تنقید کیا کریں ۔

The Column Published with the Name "Sirf Tanqeed Q" in Daily Akhbar-e-Khyber 03/04/2015

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.