5/14/2016

دال میں کچھ کالا ہے

پاکستانی سیاست کی یہ روش رہی ہے کہ اقتدار و اختلاف کے مزے لوٹنے والے اپنے دور کے پہلے تین سال کچھ نہیں کرتے نظرآتے ہیں لیکن جب تین سال گزرجائے تو سب بیدار ہوجاتے ہیں ۔ صاحب اقتدار ملک کے دور دراز علاقوں کے دوروں پر نکل جاتے ہیں جبکہ حزب اختلاف یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کیسے اپنے آپ کو دودھ کا دھلا ثابت کریں ۔ پچھلے ادوار میں تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انتخابات سے کچھ مہینے پہلے کچھ لوگ اس جواز کے ساتھ استعفے دیتے ہیں کہ ان کی بات نہیں مانی جارہی نہ ہی وہ اپنے عوام کی اس شکل میں نمائندگی کے قابل ہیں جس کے لئے انہیں ایوانوں میں بھیجا گیا تھا ۔ ہمارے عوام بھی اس معاملے میں جلدی دھوکہ کھاجاتے ہیں اور اپنے "معصوم" لیڈر (سیاستدان) کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ انکی قربانی کو سلام پیش کرنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ نکل آتے ہیں اور ان کا عوام میں نام نہاد واپسی پر پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے، پھول نچھاور کئے جاتے ہیں اور اسطرح ایک مرتبہ پھر وہ صاحب آئندہ پانچ سال کے لئے ایوانوں میں بھیج دیا جاتا ہے ۔
یہی روش گذشتہ 70 برسوں سے دیکھنے میں آرہا ہے جو ابھی تک جاری ہے ۔ اس کا صاف صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ عوام ابھی تک سیاسی شعور سے کوسوں دور ہیں ۔ لیکن جب ملک کا بادشاہ دو سال پہلے عوام میں جانے کی لگن شروع کردیتے ہیں تو ایسے میں دو ہی نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں:
1)     ان کو  اپنی اقتدار جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے
2)     یا ان کو اگلے پانچ سال بھی عوام کو دھوکے میں رکھنا ہے
یہی کچھ ایک مرتبہ پھر پاکستان میں نظر آرہا ہے ۔ ایک طرف پاناما لیکس میں 199 افراد کو چھوڑ حزب اختلاف وزیراعظم کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے پاس آئندہ انتخابات سے کچھ دو سال پہلے حزب اقتدار او خصوصاً وزیراعظم نوازشریف کو بدنام کرنے کا ایک اسان بہانہ میسر آیا ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ ن والے ملک کے طول و عرض کے دوروں میں مصروف ہیں ۔ کبھی پشاور، کبھی مانسہرہ، کبھی بنوں تو کبھی سکھر ۔ صرف دورے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے اعلانات بھی کئے جارہے ہیں ۔ پاکستان کے عوام کا حافظہ اگر کمزور نہ ہو تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ اسی وزیراعظم نوازشریف نے اس وقت کے آمر جنرل (ر) پرویزمشرف کے ساتھ سازباز کرتے ہوئے سعودی عرب کے لئے پرواز کا انتخاب خود کیا تھا۔ اسی طرح کرپشن اور ٹیکس چوری کا الزام لگانے والوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ مسٹر ٹین پرسنٹ کا تعلق (آج کل کے) خزب اختلاف سے ہی تھا یا ہے ۔
ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجئیے خیبرپختونخوا کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ سب سے پہلے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کا احتساب ہونا چاہئیے، پیپلزپارٹی نے بھی حامی بھر لی ۔ لیکن کوئی ہے جو ان سے پوچھ لے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دو مایہ ناز کھلاڑیوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ان کے باہر آف شور کمپنیاں ہیں ۔ ایک صاحب نے تو کہا کہ وہ کمپنیاں میری نہیں بلکہ میرے بچوں کے ناموں پر ہیں، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ یہی بات نوازشریف نے کہی تھی تو تحریک انصاف والوں نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وزیراعظم صاحب آپکے بیٹے آپ سے الگ تو نہیں ۔ عمران خان صاحب کے احتساب کے معیار کا کیا کہنا ہے ابھی خیبرلیکس (خیبربینک) لوگ شاید بھولے نہیں کہ ایم ڈی نے صوبائی وزیرخزانہ جناب مظفرسید صاحب کے خلاف اخبار میں اشتہار تک چھاپ دیا اور اخر کار جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قصہ ہوگیا ۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے کرپشن فری پاکستان کا نعرہ گذشتہ دنوں بلند کیا اور اسی عنوان پر ایک مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا، واہ واہ ہوئے، ارشاد ارشاد اور مکرر مکرر بھی سنے گئے لیکن گفتم نشستم برخاستم والی کہانی ۔ کوئی پوچھے امیر جماعت سے کہ انہوں نے اپنے وزیر مظفرسید کے کرپشن کے خلاف کیا کارروائی کی؟ میرے ایک دوست نے تو مجھے یہاں تک کہہ دیا کہ بھئی خیبربینک میں کوئی بھی کام ہو تو جماعت اسلامی والوں سے کرواؤ کیونکہ اگر جماعت کا کوئی مقامی رہنما بھی خیبربینک کے کسی شاخ میں جاتا ہے تو منیجر تک کے لوگ اس کو سلام کرنے حاضر ہوجاتے ہیں کیونکہ زیادہ تر ان میں جماعتی ہی بیٹھے ہیں ۔
اب ہر کوئی اپنا منجن بیچ رہا ہے، خوار و زار ہورہا ہے تو بیچارہ عام آدمی ۔ کل کو پھر الیکشن ہوں گے (اور شاید جلدی بھی ہو، کیونکہ کچھ اداروں کو شاید بہت جلدی ہے) اور یہی عام آدمی اپنے رہنما انہی لوگوں کو چنیں گے پھر وہی پانچ سالوں والی کہانی، پھر وہی آہ و بکا، پرانے چہرے نیا منجن، نئی دوکان، پرانے چہرے سب اپنے اپنے دال بیچتے رہیں گے بس دال شاید اس وقت تک پوری کی پوری کالی ہوچکی ہوگی اور غریب عوام غربت کی چکی میں پستا ہوا اس جہان فانی سے رخصت ہوکر آرام کی نیند سورہا ہوگا۔

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

0 comments:

Post a Comment

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.