11/15/2015

ایک ناقابل اشاعت تحریر

 کیوں اور صحافی کے اوقات

صحافت کے الف ب سیکھتے وقت اپنے ایک استاد محترم سے سیکھا تھا کہ صحافی ہمیشہ "کیوں" کے جواب کا متلاشی رہتا ہے اور جب ایک "کیوں" کا جواب مل جائے تو دوسرا "کیوں" سامنے آجاتا ہے ، اسی طرح یہ "کیوں" کا سفر ایک صحافی کی زندگی کا ایک اہم حصہ رہتا ہے  اور اسی جواب کے تلاش میں وہ اکثر بہت سے "ایکسکلوسیوز" بھی سامنے لے آتا ہے ۔ ہمارے ایک صحافی بھائی دوست نے بھی ہمارے انتہائی محترم جناب عمران خان سے اسی کیوں کا جواب جاننا چاہا تو صاحب برا مان گئے اور پوری صحافی برادری کو ان کے اوقات یاد دلانے کی بھرپور کوشش کی ۔ شاید ان کو اب یاد آیا ہی ہوگا کہ ہم کیا ہیں ؟ ہمارا کام کیا ہے؟ اور ہم کرکیا رہے ہیں ؟ اسی صحافی برادری نے پاکستان کے ایک ادنٰی سی جماعت کو پاکستان کی تیسری بڑی جماعت بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اب بھی ادا کررہے ہیں ۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ہم 126 دنوں پر مشتمل دھرنے کی کوریج کررہے تھے تو خان صاحب عین بلیٹن کے وقت اپنی تقریر شروع کردیتے  اور یہی صحافی برادری اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی تکمیل کی خاطر پاکستان سمیت دنیا بھر کی اہم خبروں کو ایک طرف رکھ کر پوری کی پوری تقریر براہ راست دکھا تے تھے (شاید اس کے پیچھے کچھ اور عناصر بھی کارفرما ہو) ۔ پھر جب دھرنوں ہی کے دوران ایک خاتون صحافی پر بوتلوں اور گالیوں کی بوچھاڑ کی گئی تب بھی کچھ صحافی حضرات چُپ ہی رہے اور ایک نیوز چینل (شاید تن تنہا) یہ جنگ لڑتی رہی لیکن اس وقت سے ہم یہی سنتے چلے آرہے تھے کہ آج  اگر یہ نشانے پر ہے تو کل میں اور آپ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران عارف یوسفزے نے عمران خان کے "مردم شناس" ہونے پر شبہ ظاہر کیا اور سوال کیا کہ خان صاحب شاید آپ اچھے مردم شناس نہیں ہے ۔  خان صاحب نے جواب دینے کی بجائے  اس سوال کو اپنی انا پر ایک کاری ضرب محسوس کرتے ہوئے اسی صحافی کو ان کے اوقات یاد دلائے  ۔  میں عارف یوسفزے کو جانتا نہیں نہ وہ مجھے جانتا ہے لیکن ایک ادنٰی صحافی ہونے کے ناطے مجھے دکھ ضرور پہنچا ہے اور اسی کی خاطر کچھ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں ۔خان صاحب نے ہمارے بھائی عارف یوسفزے کے سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے  اسے ذاتی زندگی میں دخل اندازی قرار دی  ۔ لیکن خان صاحب شاید بھول گئے تھے کہ وہ بندہ جو اپنے آپ کو قوم کا رہنما گردانتا ہے اس کی کوئی چیز ذاتی نہیں رہتی   اور خان صاحب کی تو کوئی بھی چیز ذاتی نہیں  ۔  مجھے آج بھی یاد ہے کہ خان صاحب نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر (دوسرے سے مائیک چھین کر) شادی کرنے کا اعلان کیا تھا اور ان کے الفاظ کچھ یوں تھے "نیا پاکستان اس لئے بھی بنانا ہے تاکہ میں شادی کرلوں " (شادی کے لفظ پر خان صاحب نے بہت زور بھی دیا تھا ، معذرت اگر الفاظ ہو بہو وہ نہ ہو) ۔ پھر جب شادی کا اعلان کیا گیا تو وہ بھی میڈیا پر ۔ یہاں تک کہ نکاح کے دن بھی کچھ ٹی وی چینلز یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کررہے تھے کہ خان صاحب اور ریحام خان صاحبہ کی شادی کے بعد پہلا انٹرویو وہ ریکارڈ کرسکے ۔سوشل میڈیا پر کچھ لوگ یہ دعوٰی بھی کررہے ہیں کہ خان صاحب نے کبھی کسی کی ذات پر حملہ نہیں کیا اور وہ ایک اچھے سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ پرائیویسی کی قدر کرنے والےانسان بھی ہے ۔ ہوں گے شاید لیکن اب تک ہم نے خان صاحب سے جو بھی سیکھا ہے وہ گالی گلوچ اورعوامی اجتماع میں دوسرے سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالنا ہی ہے ۔ 126 روز کے دھرنے کے دوران انہوں نے کسی کو نہیں بخشا ۔ مولانا فضل الرحمان کو مولانا ڈیزل کہا، پشتون ثقافت (چادر) اور محمود خان اچکزئی کا مذاق اڑایا ۔ ڈاکو ، چور ، لٹیرے تو شاید ان کی ڈکشنری میں گالیاں ہیں ہی نہیں ۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہمارے صحافی برادری ان کی اب بھی قدر کرتی ہے ۔  ان کی ہر کہی ہوئی بات اخبار کی شہ سرخیاں اور  ٹی وی چینلز کی ہیڈلائینز ہوتی ہیں ۔ خان صاحب کو کوریج دینا ان کا اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے سیاسی رہنماؤں کا ہے کیونکہ نہ تو خان صاحب ہمارا لیڈر ہے اور نہ دوسرے سیاسی رہنما ۔ ہمارے لئے سب کے سب ایک خبر ہے اور بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پرائیویسی کی بات اگر کی جائے تو کسی کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کرنا نہ صرف صحافی بلکہ ہر انسان کو زیب نہیں دیتا اور نہ کوئی انسان یہ خواہش رکھے گا کہ کسی کی ذاتی زندگی پر انگلیاں اٹھائے ۔ ہاں اگر کوئی ہمیں ہمارے اوقات یاد دلائے گا تو پھر تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ کچھ کڑوا سچ بھی سامنے لایا جائے ۔  طلاق ایک ذاتی معاملہ ہے لیکن یہی ذاتی معاملہ اگر سیاسی معاملہ بنایا جائے تو پھر وہ ذاتی نہیں بلکہ عوامی معاملہ بن جاتا ہے ۔  خان صاحب کو اگر اپنی ذاتی زندگی اتنی ہی پیاری تھی تو اپنی پارٹی کے ترجمان جناب نعیم الحق صاحب کے ذریعے اپنی طلاق کی خبر اپنے پسندیدہ چینل کو کیوں دی ؟ بھئی گھر کا معاملہ ہے گھر ہی میں رہنے دیتے کیوں سارا دن ٹی والوں کو ٹاک شوز کرنے کے لئے ایک موضوع دی ۔ ٹی وی والوں نے زلزلہ ذدگان کے مسائل کو چھوڑ کر پورے 24 گھنٹے طلاق کی خبریں بھی اسی لئے چلائیں کیونکہ خان صاحب شاید یہی چاہتے تھے ۔ اگر وہ نہیں چاہتے تھے تو چپکے سے تین بار یہ کہا ہوتا کہ طلاق، طلاق،طلاق اور معاملہ ختم ہوجاتا ۔جب آپ خود ہی ذاتی زندگی کو سیاسی زندگی بنانے کے درپے ہیں تو خان صاحب (بڑی معذرت کے ساتھ) صحافی کا تو کام ہی سوال کرنا اور کیوں کا جواب تلاش کرنا ہے ۔ ہم تو کریں گے آپ جواب نہیں دیں گے تو پھر کریں گے ، پھر نہیں دیں گے تو پھر کریں گے ۔ ۔ ۔  یہ سلسلہ رُکے گا نہیں ۔ ۔ ہاں ہمیں اوقات یاد دلانے کی بجائے اگر ذاتی زندگی پر توجہ دی ہوتی تو شاید آج معاملہ یہاں تک نہ پہنچ چکا ہوتا اور نہ ہم کیوں کا جواب آپ سے مانگتے ۔ ۔ ۔آخر میں شکریہ کہ آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور نہ صرف عارف یوسفزے بلکہ پوری صحافی برادری سے معافی مانگ ہی لی جو شاید خان صاحب کی زندگی کی پہلی معافی ہوگی ۔ 

Imran Ashna

زۀ، د پېشې په لحاظ خبريال يم، د پښتو ژبې، ادب او تاريخ زدۀ کوونکے يم او غواړم چې د پښتو ژبې خدمت وکړم ۔ د دې ليک سره په منطقي ډول اتفاق يا اختلاف ته سترګې په لار به يم ۔

2 comments:

  1. یہ پہلی نہیں بلکہ دوسری معافی ہے ، اِس سے پہلے افتخار چوہدری سے معافی مانگا اور اُسکے ریٹائرڈ ہونے کے بعد پهر وہی الزامات کا سلسلہ شروع کیا

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ لیکن اگر میں غلط نہیں ہوں تو اس معافی سے خان صاحب نے دستبرداری کا اعلان کیا تھا اور پھر کہا بھی تھا کہ اس میں میری مرضی شامل نہیں تھی ۔ شکریہ کمنٹ کا اور اگر میں غلط ہوں تو پلیز تصحیح کیجئیے

      Delete

 

Copyright @ 2013 عمرانيات.